ترکی اور تعلیم ۔ 81

مولانا اسٹوڈنٹ ایکسچینج پروگرام سے استفادہ کرنے والے طالب علموں سے انٹرویو

347276
ترکی اور تعلیم ۔ 81

"بارش کی مہک کو نا جاننے والے نیلو فر پھول کو خالی نظروں سے دیکھتے ہیں"
ٹی آرٹی کے شعبہ صدائے ترکی سے ترکی اور تعلیم نامی پروگرام کے ساتھ پیش خدمت ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر تعلیمی سرگرمیوں اور ترکی میں اعلی تعلیم کے حصول کی خاطر آپ نوجوانوں کے ذہنوں میں آنے والے تمام تر سوالات کا جواب دینے کے لیے ہم ہمہ وقت تیار ہیں۔
ہم نے آج کے پروگرام کا آغاز شاعر پال الوارڈ کے ایک قول سے کیا ہے۔ زندگی کے دوران اچھی چیزوں کے حصول کی خاطر ہم ہر ممکنہ کوششوں میں محو رہتے ہیں۔
گزشتہ قسط میں اپنے وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے ہم نے مولونا ایکسچینج پروگرام کے ایک اہم موڑ ثابت ہونے کا ذکر کرنے والی ایک طالبہ بیضہ خان کی کہانی کو گوشِ گزار کیا تھا۔ آج بھی ہم ایک مختلف کہانی کو بیان کرتے ہوئے اسی سوال کا جواب دینے کی کوشش کریں گے۔ہم اپنے سوال کو یہاں پر دوبارہ دہراتے چلیں: مولانا سٹوڈنٹ ایکسچینج پروگرام طالب علموں اور اساتذہ کو کس طرح کے فوائد پہنچاتا ہے؟
مولانا ایکسچینج پروگرام کی بدولت ایک دوسرے ملک میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع سے استفادہ کرنے والے طلباء بین الاقوامی سطح پر اپنے آپ کو بیان کرنے کےموضوع پر کئی طرفہ اور تجزیاتی نقطہ نظر کے حامل ہوتے ہیں۔ پروگرام کے دائرہ کار میں بیرون ملک جانے والے یہ طالب علم اپنے تعلیمی تجربات سمیت اس ملک کی ثقافت و سوچ کو بھی قریب سے جاننے کا موقع حاصل کرتے ہیں۔ نئے دوست بناتے ہیں اور غیر ملکی زبان کو فروغ دیتے ہیں۔
یہ طلباء اکیڈمک دور کو بیرون ملک میں گزارتے ہوئے حاصل کردہ تجربات کی روشنی میں منصوبہ بندی کردہ کیریئر کے حصول کے دورانیے میں گراوٹ لانے میں اہم سطح کے مواقعوں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔مولانا ایکسچینج پروگرام کی وساطت سے ترکی آنے والے اساتذہ بھی بیرون ملک میں تدریسی کرنے اور مختلف نقطہ نظر سے اپنی معلومات کو نئی نسلوں تک پہنچانے کے امتیاز کو حاصل کرتے ہیں۔
اکیڈمک تعاون کو اپنے وطن لوٹنے کے بعد بھی جاری رکھتے ہوئے مختلف کانفرسوں، منصوبوں اور سیمینارز کے ذریعے اپنے ہم وطنوں کو اپنے تجربات سے استفادہ کرانے کا موقع بھی حاصل کرتے ہیں۔
دوستو آئیے اب مولانا ایکسچینج پروگرام سے استفادہ کرنے والی ایک اور طالبہ کی کہانی کو انہی کی زبانی سنتے ہیں۔ ہمارا ان سے پہلا سوال کچھ یوں تھا۔
کیا آپ اپنا تعارف کروانا پسند فرمائیں گی؟
" جی ہاں اسلام و علیکم میرا نام اسیلیا ضمیر بیکووا ہے۔ میں سن 1994 میں کرغزستان کے شہر چولپون اتا میں پیدا ہوئی۔ وہیں پر پلی بڑی اور ابتدائی تعلیم بھی وہیں پر حاصل کی۔ بعد ازاں دارالحکومت بشکیک میں کرغز ترک مناس اسکول میں ہائی اسکول کی تعلیم کو جاری رکھا۔ پھر یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور سن 2014 میں مولانا ایکسچینج پروگرام کے ماتحت غازی یونیورسٹی کے فکلیٹی آف کیمیونیکشن کے شعبہ تعلقات ِ عامہ میں تیسری جماعت میں زیر تعلیم ہوں ۔
سوال: آپ نے انقرہ کو کیسا پایا؟
جواب: پہلے پہل جب میں انقرہ آئی تو اس شہر نے مجھے بیشکیک جیسا تاثر دیا۔ مجھے اب اس شہر سے بھی بڑی محبت ہے یہ میرے دوسرے گھرانے کی طرح ہے۔ گو کہ یہ شہر طالب علموں کے لیے تھوڑا مہنگا ہے تا ہم یہاں پر موجود یونیورسٹیوں کا معیار پائے کا ہے۔ حتی ترکی کی بہترین یونیورسٹیاں انقرہ میں ہی ہیں۔ میں نے مڈل ایسٹ ٹیکنیکل یونیورسٹی ، ہاجت تپے یونیورسٹی اور انقرہ قلعے کی سیر کی۔ خاص طور پر انقرہ کے عجائب گھروں کی سیر نے میری تاریخ میں دلچسپی کو بڑھایا ہے۔ علاوہ ازیں استنبول، کاپاددوکیا اور ایجین کے علاقوں کی سیر کی، جو کہ میرے لیے خوشی کا موقع ثابت ہوئی۔ میں پوسٹ گریجوایشن کے لیے ازمیر کی یونیورسٹیوں میں درخواست دائر کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں۔"
سوال: غازی یونیورسٹی کے بارے میں بتائیں کیا آپ دیگر طلبا ء کو یہاں پر تعلیم کا مشورہ دیں گی؟
جواب: " غازی یونیورسٹی کو میں نے کافی پسند کیا ویسے بھی یہ ایک کافی پرانی اور معیاری جامع ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میرا شعبہ مرکزی کیمپس سے کافی دوری پر واقع ہے، اس بنا پر سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے امکانات کافی معدوم ہیں۔ تعلیمی اعتبار سے یہ ایک معیاری یونیورسٹی ہے، ہمارے اساتذہ بھی کافی تجربہ کار ہیں، میں نوجوانوں کو قطعی طور پر یہاں پر اعلی تعلیم حاصل کرنے کا مشورہ دیتی ہوں۔"
سوال: مولانا ایکسچینج پروگرام سے آپ کو کس طرح آگاہی ہوئی؟
جواب: " میں جس یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھی اس نے مذکورہ ایکسچینج پروگرام کے ساتھ معاہدہ طے کر رکھا ہے۔ اس کی ویب سائٹ کے ذریعے میں نے درخواست جمع کرائی تھی۔ سی جی پی اے بلند ہونے والوں کو اس پروگرام میں منظوری ملتی تھی۔ ایپلیکشن کے وقت تھوڑی بہت مشکلات پیش آئیں، مجھے پہلے پہل وظیفہ اور ہاسٹل دیے جانے کا کہا گیا تا ہم میں ان سے محروم رہی۔ لیکن مجھے بیرون ملک تعلیم کا اشتیاق تھا لہذا میں اپنے والدین سے مالی مدد حاصل کرتے ہوئے انقرہ پہنچ ہی گئی۔ سچ پوچھیے تو مجھے شروع شروع میں کافی دقت پیش آئی، کرغزستان سے چند طالبات کے ہمراہ ہم نے ایک فلیٹ کرائے پر لیتے ہوئے اس میں رہائش اختیار کی۔"
سوال: آپ کے اساتذہ کے ساتھ تعلقات کیسے ہیں؟
جواب: " اساتذہ نے ہمارے ساتھ بڑا تعاون کیا۔ معمر چیتن سے میری کرغزستان میں ملاقات ہوئی تھی، انہوں نے یہاں پہنچنے پر میری خاصی مدد کی۔ خاص طور پر کرغزستان سے تعلق رکھنے سے بھی مجھے کافی مدد ملی۔"
" سوال: کیا آپ مولانا ایکسچینج پروگرام سے استفادہ کرنے کا دیگر طالب علموں کو مشورہ دیں گی؟
جواب: " یہ ترکی کی ثقافت، تعلیم، زبان کو سیکھنے کے لیے ایک بہت اچھا پروگرام ہے۔ شروع شروع میں کنبے سے دور جانا کافی مشکل تھا، یہاں پر رہنا بھی، میں نے حتی فوراً واپسی کا بھی سوچا۔ میرے پروفیسر حضرات نے مجھے کم از کم ایک سمسٹر تک رکتے ہوئے جانے کا مشورہ دیا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری ساری کی ساری پریشانیاں دور ہوتی گئیں۔ اور میں نے دوسرے سمسٹر کو بھی یہیں پر جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔
سوال: اس پروگرام سے استفادہ کرنے کے خواہاں کو کیا کرنا چاہیے؟
جواب: طالب علموں کو اولین طور پر اپنے گریڈ اچھے بنانے چاہییں اور پھر اپلائی کرنا چاہیے۔ اسباق کے انتخاب میں انہیں دھیان اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ بعض طالب علموں نے یہاں پر پاس کرتے ہوئے اسباق کو واپس جانے پر دوبارہ پڑھا۔
سامعین چند ہفتوں سے جاری مولانا ایکسچینج پروگرام کو ہم نے اس سلسلے کا موضوع بنا یا۔ اگر آپ بھی اس پروگرام سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں تو www.mevlana.gov.tr ویب سائٹ کا ضرور مطالعہ کیجیے۔
یونیورسٹی کا انتخاب کرتے وقت ترکی کے مختلف شہروں کی یونیورسٹیوں کے بارے میں آپ کی دلچسپی اور سوالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارا یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں