فطرت کی گود میں ۔ 2

وادی نارمان کی سیر

383340
فطرت کی گود میں ۔ 2

پروگرام "فطرت کی گود میں" کے ساتھ آج ہم آپ کے ساتھ نارمان وادی کے سفر پر روانہ ہوں گے۔ پیارے قارئین جن کو جلدی نہیں ہے ہم راستے میں ان کی ہمراہی کر سکتے ہیں۔ ہم مل کر گم ہوں گے لیکن یہ گم شدگی فطرت کی آغوش تک جانے والی پگڈنڈیوں پر ہو گی۔ ان پگڈنڈیوں پر ہمارا ایک ایک قدم ہمیں خوبصورت ترین رنگوں اور شاندار ترین مناظر تک لے جائے گا۔ یہ فطرت کبھی ہمارے سامنے ایسے سرپرائز لائے گی جو ہم نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے۔ ہمارا آپ کے ساتھ یہ دلکش سفر کبھی کسی دلفریب آبشار پر کبھی کسی جمی ہوئی جھیل پر اور کبھی سُرخ سُرخ گالوں والے کھیلتے کودتے بچوں والی چراگاہوں پر ختم ہو گا۔ کبھی ایسا بھی ہو گا کہ ہم آپ کے ساتھ سمندر کے ساحلوں سے گزریں گے اور کبھی ہم کسی ہزار سالہ قدیم تاریخی شہر میں ہوں گے۔

پیارے قارئین یہ پگڈنڈیاں فطرت کے دل تک جاتی ہیں۔۔۔ ان میں سے ہر ایک خوابوں کی دنیا میں کھلنے والا ایک دریچہ ہے۔ ان دریچوں کی مدد سے ہم آپ کی نگاہوں کے سامنے فطرت کے دل کو وا کریں گے اور کھلنے والے ہر دریچے سے جو سرپرائز ہمارے سامنے آنے گا اس سے مل کر لطف اٹھائیں گے۔
کبھی کسی بنجارے کی طرح ایک گاوں سے دوسرے گاوں اور ایک شہر سے دوسرے شہر تک چلتے چلے جائیں گے ۔ کبھی کسی البیلے کی طرح پہاڑوں کے اندر پوشیدہ جگہوں تک پہنچیں گے اور دلکش مناظر کی ہمراہی میں نئی نئی جگہیں تلاش کریں گے۔ کبھی ہم کسی پڑاو میں چراگاہ والوں کے مہمان بنیں گے اور کبھی کسی جھیل کے کنارے کیمپ لگائیں گے۔ یعنی مختصر یہ کہ ان پگڈنڈیوں کے راستے ہم فطرت کے ہر چھپے ہوئے گوشے کو تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔
اور لیجیے ہمارا سفر شروع ہو گیا۔۔۔

ایک وادی کو خیال کریں ، ایسی وادی کہ جس میں سینکڑوں سرخ رنگ کی پریوں کی چمنیاں ہوں جو سحر انگیز سیڑھیوں کی طرح آسمانوں کی طرف بلند ہو رہی ہیں۔ ایک ایسی وادی کو سوچیں جس میں موجود ہر چمنی مختلف شکل سے مشابہہ ہو اور ایک الگ خوبصورتی کی مالک ہو۔ ایک ایسی وادی جو اپنی نوعیت کے دنیا کے چند ایک قدرتی حسن کے نمونوں کے ساتھ قدرتی حسن کی میراث ہونے کے باوجود بہت زیادہ نہیں جانی جاتی ۔
روزہ مرہ زندگی سے کوئی اڑھائی تین ملین سال قبل بہتے پانی ،زیادہ فولاد والی چٹانوں سے بھُرنے والے مواد کو لا لا کر یہاں جمع کرتے رہے۔ جمع کرنے کا یہ عمل کچھ ملین سال تک جاری رہا۔ اس کے بعد علاقے میں جمع شدہ اس نرم مواد نے پہلے بارشوں اور اس کے بعد ہواوں کی وجہ سے کٹاو کے عمل سے گزر کر ایک شکل اختیار کرنا شروع کر دی۔ کٹاو کا یہ عمل کپادوکیہ کے علاقے سے مشابہہ ہونے کے باوجود یہاں قدیم رہائش کے آثار نہیں ملتے۔ اس کی وجہ نارمان وادی کی ان چمنیوں کا بہت باریک اور نرم ہونا ہے۔ کپادوکیہ کی بناوٹ آتش فشانی لاوے سے ہونے کی وجہ سے ان چٹانوں میں سلیسئیم کی مقدار زیادہ ہے جس کے سبب انسانوں نے انہیں کھود کر اپنے لئے پناہ گاہ بنا لیا۔ لیکن نارمان کی چمنیوں کو نرم مواد سے بننے کی وجہ سے پناہ گاہ کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔
چند سال قبل تک نارمان وادی کی موجودگی سے چند ماہرین ارضیات یا پھر علاقے کے عوام واقف تھے لیکن وادی کے اندر کی سرخ چمنیوں کو استنبول یونیورسٹی کی طرف سے وادی میں کی گئی جیوپارک کاروائیوں کے بعد زیادہ پہچانا جانے لگا۔ دنیا میں صرف چند ایک علاقوں میں پائی جانے والی ان نادر ساختوں کو ترکی کے فطری عجوبوں میں سرفہرست مقام حاصل ہے۔ یہ درہّ نما وادی ضلع ارض روم کی تحصیل نارمان کی سرحدوں میں واقع ہے جبکہ پریوں کی چمنیاں نارمان پاسین لر کے راستے کے 11 ویں کلومیٹر سے شروع ہوتی ہیں۔ راستہ بھر فطرت رفتہ رفتہ سرخ رنگ میں رنگنا شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ یول دیرے گاوں کے اطراف میں مکمل طور پر سرخ رنگ کی زمینی ساختیں حاکم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ غیر معمولی مناظر کُل 63 کلو میٹر کے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان آٹھ وادیوں میں سے سب سے زیادہ پہچانی جانے والی گیون دیرے وادی ہے۔
آج ہم آپ کے ساتھ گیون دیرے وادی میں ایک سفر کریں گے۔ یہ سفر کُل 4 کلو میٹر تک جاری رہے گا۔ اگر آپ اس وادی کی سیر کرنا چاہتے ہیں تو میرا آپ کو مشورہ ہے کہ یہ سیر موسم گرما کی بجائے موسم بہار ،موسم خزاں یا پھر موسم سرما میں کریں۔ اگر آپ کہیں کہ ارض روم میں تو بہت برفباری ہوتی ہے تو میں آپ کو بتاتی چلوں کہ اس وادی میں موسم سرما میں بھی برف زیادہ دیر تک نہیں ٹکتی۔ موسم بہار میں وادی سال بھر میں سب سے زیادہ نمی والی ہوتی ہے۔ موسم خزاں میں یہاں کی جانے والی ہائکنگ کے دوران آپ سرخ رنگ کے متعدد شیڈز کو دیکھ سکتے ہیں اور وادی ایسے دلکش مناظر پیش کرتی ہے کہ جنہیں دیکھ دیکھ کر آپ کا دل نہیں بھرے گا۔ وادی میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے اگر آپ اپنے ساتھ کم از کم دو لیٹر پانی لے لیں تو اچھا رہے گا۔
پاسین لر راستے پر آگے بڑھتے ہوئے نارمان پریوں کی چمنیوں کا منظر آپ کے سامنے ہو گا۔ دائیں طرف جانے والے اس راستے پر 600 کلو میٹر آگے بڑھنے کے بعد آپ ایک پرانے فٹبال گراونڈ میں پہنچیں گے۔ گاڑی کو یہاں چھوڑیں ، گاڑی سے اترتے ہوئے آپ کو دو چمنیاں نظر آئیں گی۔ لمبی والی کی شکل ایک طویل گردن اور جھریوں زدہ چہرے والی خلائی مخلوق سے ملتی ہے۔ ان شکلوں کو فطرت نے ہزاروں سالوں میں بنایا ہے اور انہیں دیکھ کر انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ حقیقی فنکار خود فطرت ہے۔ اگر آپ صبح سویرے وادی میں پہنچیں تو آپ کا سامنا خوراک کی تلاش میں باہر گھومتی پھرتی لومڑیوں سے بھی ہو سکتا ہے۔ یہ لومڑیاں بعض اوقات تجسس میں دور سے آپ کا تعاقب کرتی ہیں۔ اس وادی میں جو چند گھنٹے کی واک آپ کریں گے وہ آپ کو ایسے لمحوں سے دوچار کرے گی جنہیں آپ زندگی بھر نہیں بھول سکیں گے۔ ان دو چمنیوں سے گزرنے کے بعد جب آپ واک کا آغاز کریں گے تو آپ کو رقص کرتے انسانوں جیسی ساختیں نظر آئیں گی۔ ان سے آگے گزرنے کے بعد آپ وادی کے وسیع حصے میں پہنچیں گے۔
یہ وادی ہر طرح کے حیوان کی میزبانی کرتی ہے جن میں بھیڑیا، لومڑی، خرگوش، عقاب، چیل، چڑیاں اور بٹیر سرفہرست ہیں۔ جب آپ چل رہے ہوں گے تو آپ کے سر کے اوپر سے چڑیوں یا بٹیروں کے غول اور ان کا پیچھا کرتے ہوئے عقاب گزر سکتے ہیں۔ ذرا غور کریں تو آپ کسی جھاڑی میں جال لگائے اپنے شکار کے انتظار میں بیٹھے یا شکار کو جال میں لپیٹتے مکڑے کو دیکھیں گے۔ یہ وادی صرف اپنی زمینی ساخت کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ بیالوجیکل اقسام کے حوالے سے بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔
پوری وادی میں چلنا جاری رکھیں اور تیسری چھوٹی وادی سے بائیں ہاتھ پلٹیں۔10 منٹ کی واک کے بعد آپ کا انصاف کے ترازو جیسی شکل سے سامنا ہو گا۔ یہ ہرگز نہ سوچیں کہ ایک شکست و ریخت کس طرح ایسی شکل اختیار کر سکتی ہے کیونکہ جیسے ہی بارش اور ہوا ملتے ہیں تو وہ سب شکلیں بنا لیتے ہیں جو ہمارے وہم و گمان سے بھی نہیں گزر سکتیں۔
تقریباً دو گھنٹے کی واک میں آپ کا ایسی چمنیوں سے سامنا ہو گا کہ جن میں سے ہر ایک کسی علیحدہ شکل سے مشابہہ ہو گی۔ کسی کو آپ کوبرا سانپ سے تو کسی کو چھپکلی سے مشابہہ کریں گے۔
وادی کے خاتمے پر بائیں طرف بلند ہوتی پگڈنڈی پر چڑھیں۔ جیسے جیسے آپ اوپر چڑھتے جائیں گے گیون دیرے وادی اور دیگر چھوٹی وادیاں نیچے رہ جائیں گی۔ ایک لمحہ ایسا آئے گا کہ یہاں کے سرخ رنگوں سے آپ خود کو کسی اور سیارے پر محسوس کریں گے۔
ڈوبتا سورج اس شاندار منظر کے فی الحال خاتمے کا سبب بنے گا اور اس کے ساتھ ہی وادی میں موجود حیوانات کی زندگی کی جدوجہد کے آغاز کا اشارہ بھی ہوگا۔ یہ چکر ان چمنیوں کے ہوا کے تھپیڑوں سے مٹ کر زمین سے ملنے تک جاری رہے گا۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں