پاکستانی سماج - 28

ایک نئی تحقیق کے مطابق 80فیصد لڑکیاں 10برس کی عمر تک کسی نہ کسی طور پر ڈائیٹ کر رہی ہوتی ہیں یا پھر کر چکی ہوتی ہیں اور 50فیصد یہ چاہتی ہیں کہ وہ ’’پتلے جسم‘‘ کی نظر آئیں۔ یہ خبر کامن سینس میڈیا نیوز ریسرچ نے پیش کی ہے

344841
پاکستانی سماج - 28

ایک نئی تحقیق کے مطابق 80فیصد لڑکیاں 10برس کی عمر تک کسی نہ کسی طور پر ڈائیٹ کر رہی ہوتی ہیں یا پھر کر چکی ہوتی ہیں اور 50فیصد یہ چاہتی ہیں کہ وہ ’’پتلے جسم‘‘ کی نظر آئیں۔ یہ خبر کامن سینس میڈیا نیوز ریسرچ نے پیش کی ہے۔ یہ خبر قابلِ توجہ ضرور ہے مگر غیر متوقع ہر گز نہیں۔ کیونکہ اس سے قبل 2013ء میں 108ملین امریکی باشندے ڈائیٹ پر تھے۔ اسی طرح 2013ء میں امریکی ویٹ لاس مارکیٹ 60.5بلین ڈالر کی سطح پر تھی۔ یہی صورتحال پاکستان میں بھی رونما پذیر ہے۔ یہ نوجوان لڑکیاں اپنی جسمانی ہیئت کے بارے میں سخت فکر مند اور تشویش میں مبتلا دکھائی دے رہی ہیں۔
ہم جب بھی ٹی وی آن کرتے ہیں، کسی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں یا پھر رسالے کی ورق گردانی۔۔ ۔ہم اپنے جسم کو ناممکن حد تک اعلیٰ معیار کے مطابق بنانے کیلئے مخمصوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں دکھائے جانے والے یہ تاثر دقیانوسی، غیر حقیقی اور اصناف کی بنیاد پر ہیں حتیٰ کہ شہوانی جذبات میں تیزی لانے کے باعث ہیں۔
5سے 12برس تک کی لڑکیوں میں 69فیصد یہ بتاتی ہیں کہ رسالوں و جرائد کی تصاویر ان کی مکمل شاہت کے نظریئے کو متاثر کرنی دکھای دیتی ہیں۔
ڈائیٹ کے مسائل میں مائیکرونیوٹرنٹس اور غذائیت سے محرومی سرِ فہرست ہیں اور ڈائیٹ کرنے سے وزن میں کمی اسی بنا پر واقع ہوتی ہے کہ جسم کو مناسب مقدار میں غذائیت نہیں مل رہی ہوتی ۔ زیادہ وزن والوں کے مقابلے میں لڑکیوں میں 20بمقابلہ 80فیصد کا فرق ہے۔
ڈائیٹ کے دوران سب سے بڑا مسئلہ جو دیکھنے میں آتا ہے وہ بھوک کا زیادہ لگنا اور کھانے پینے کی چیزوں کی جانب رغبت کا بڑھنا ہے ۔ عموماً ایسی صورتحال میں پیش آتی ہے جب انسان خود کو اس چیز سے روک رہا ہوتا ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں ڈائیٹ کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ 80فیصد کے مقابلے میں 20فیصد خواتین اپنا کھویا ہوا وزن چند ہی دنوں میں دوبارہ پا لیتی ہیں جس کی اصل وجہ کھانے پینے پر ان کا کنٹرول ہے۔ ڈائیٹ کا نقصان باڈی کو اپنی مقدار کی غذا کا نہ ملتا ہے جس کے باعث کمزوری غالب آجاتی ہے اور تھکاوٹ جیسی صورتحال جنم لیتی ہے ، لڑکے اور لڑکیوں دونوں میں ہی یہ رجحان کچھ بڑھ گیا ہے جو جسمانی صحت کے لئے تباہی کا سبب بن رہا ہے۔ اور یہ بات ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ کھانا پینا چھوڑنا ہماری صحت پر برا اثر ڈالتا ہے۔ اس سے موٹاپے میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ بہت سی تحقیقات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بچوں کے رویے اور رجحان میں بڑوں جیسی تبدلی آئی ہے جیسا کہ پانچ سال کی بچی اپنی غذا کے بارے میں اسی طرح سوچتی ہے جس طرح اس کی ماں اپنی ڈائیٹ کا خیال رکھتی ہے۔ اس سب میں میڈیا کا ایک اہم کردار سامنے آتا ہے اور اس کردار سے ہم منہ نہیں موڑ سکتے کہ بچوں کی اس سوچ کا سہرا میڈیا کے سر پر جاتا ہے۔
ٹیلی ویژن میں کارٹون ڈرامے، فلم حتیٰ کہ ویڈیو گیمز میں بھی دکھائی جانے والی صورتیں جسمانی خدوخال کے لحاظ سے لوگوں کو اس راہ پر ڈالتی ہیں۔
ایک سروے کے مطابق جو 2000میں کیا گیا۔ بچوں کے نمبر ون کارٹون، فلم میں 72فیصد دکھائی جانے والی صورتیں اچھی جسمانی خدوخال کی مالک ہوتی ہیں۔ ان میں ہمدردی اور محبت کے احساسات نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ یہ صرف بچوں کو ڈائیٹ سے متعارف کرانے کے لئے ہیں لیکن ان میں قانون اورتحفظات کی حفاظت کرواتا ہے۔
دنیا بھر میں شہرت یافتہ باربی ڈول بھی بچیوں میں خوبصورتی کی ایک نئی سوچ پیدا کر رہی ہیں۔۔ ان کے خیال میں باربی کے جسمانی خدوخال ہی اس کی خوبصورتی کا اصل سبب ہے جس کو پانے کے لئے انہیں اپنی ڈائیٹ کا مشورہ دیتی ہے۔ جبکہ یہ خطرناک رجحان ہے جس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو بچیوں کی غذائی ضرورت اور وزن کی سطح کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے یہ نظام ان کے لئے کھیل تماشے کی صورتحال اختیار کر گیا ہے۔
اگر وزن کم کرنے کے لئے ڈائیٹ کرنا ضروری ہے تو کھانا پینا چھوڑنا اس کا کوئی حل نہیں بلکہ اس سے جسمانی کمزوری ہو جاتی ہے جو انسان کی صلاحیتوں کو متاثر کر دیتی ہے۔ اگر آپ کو بھوک یا کھانے کی ضرورت محسوس ہو تو کچھ نہ کچھ ضرور کھا لینا چاہئے بھوک کو مارنا نہیں چاہئے۔ اس سے صحت درست اور جسم چست رہتا ہے۔
ڈائیٹ کی سوچ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے خصوصاً بچوں کے لئیے جو 10 برس کی عمر سے ہی ڈائیٹ کرنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ اس طرح سے ان بچوں میں کینسر، میٹابولزم کی کمی اور بھو ک میں اضافے جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ تحقیق یہ بات ثابت کرتی ہے کہ جو بچیاں عمر کے پہلے حصے میں ڈائیٹ کے چکر میں پڑ جاتی ہیں 6ماہ کے اندر اندر کھانے پینے کی بے ترتیبی کا شکار ہو جاتی ہیں۔
اس تمام صورتحال میں میڈیا کا کردار بہت نمایاں ہے۔ ٹی وی پر دکھائے جانے والے وزن کم کرنے کی ادویات کے اشتہارات ، دبلی پتلی خواتین کا پرچار اور ان تمام چیزوں کا دکھانا لوگوں کے ذہن میں اس کی خواہش پیدا کر رہا ہے او رموٹاپے یا چربی کو بری چیز محسوس کر کے خود کو خوبصورت بنانے کے لئے مصنوعی طریقوں پر عمل کر رہا ہے۔
ریسرچ سے بچوں کی صحت کو بہتر بنانے کے لئے چند بنیادی طریقے معلوم ہوئے ہیں کہ بچوں کے سامنے کھانا کھائیں، رات کا کھانا پوری فیملی کیساتھ کھائیں کیونکہ تحقیق یہ بات ثابت کرتی ہے کہ جو بچے اپنے بڑوں کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں ان میں کھانے پینے کی عادات قدرے بہتر ہوتی ہیں اس کے علاوہ بچوں کے سامنے ’’میں موٹی ہو رہی ہوں‘‘ یا ’’یہ کھانے سے میرے وزن میں اضافہ ہو گا ایسے الفاظ استعمال نہ کریں۔
بچوں کو ان کے کام اور سوچ کے بہتر ہونے پر تعارفی جملہ جات سے نوازیں نہ کہ ان کے جسم اور پہننے اوڑھنے کے طریقے پرتنقید کریں، یہ رویہ اپنانے سے ان میں خود اعتمادی ہو گی۔ اور بچوں کی موجودگی کی جگہ کو موٹاپے کے ذکر سے پاک کریں تاکہ اس کا اثر بچوں کے ذہن پر نہ ہو۔
بچے اپنے گھر میں ماں ، باپ، اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے ایسی عادات سیکھتے ہیں وہ ان کا جائزہ لیتے ہیں اور نہی کے بتائے ہوئے طریقوں یا ان کی باتوں پر غور کر کے اپنے لئے آئندہ لائحہ عمل تیار کرتے ہیں اگر ہم اپنے بچوں کو اچھی صحت اور تبدرستی دینا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے انداز و اطوار پر غور کرنا ہو گا کھانے پینے کے عمل کو تندرست اور صحت مندانہ بنانا ہو گا ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں