کوچۂ فن و ادب - 26

...اٹک سے کچھ فاصلے پر پشاور کے ادبی محاذ پر دریائے سندھ جیسا طمطراق رکھنے والے فارغ بخاری، رضا ہمدانی،نذیر مرزا، شوکت واسطی، خاطر غزنوی، احمد فراز، محسن احسان اور حفیظ اثر نے بھی محبتوں اور عصبیتوں ، لطافتوں اور کثافتوں کے بیچ ایسی ہی ایک لکیر کھینچ رکھ

333000
کوچۂ فن و ادب - 26

دریائے سندھ کشمیر کے بلند و بالا پہاڑی سلسلوں سے ہوتا ہوا خیبر پختون خوا کی سنگلاخ چٹانوں کو چیرتے ہوئے تربیلا ڈیم کی بندشیں عبورکر کے جب پنجاب کے سرسبزوشاداب میدانوں میں اترتا ہے تو اُس کی شان و شوکت کے مظاہر اٹک برج کے پاس دیکھے جا سکتےہیں۔یہ وہ مقام ہے جہاں دریائے کابل اور دریائے سندھ آپس میں گلے ملتے ہیں۔ملتے کیا ہیں ،بس دریائے سندھ اپنے آپ کو چھونے کی اجازت دیتا ہے اور پھر دریائے کابل کو اس انداز میں ایک کنارے کی طرف دھکیل دیتا ہےکہ دریائے سندھ کے صاف و شفاف پانی کے ساتھ ایک گدلی سی لکیر بن جاتی ہے۔
اٹک سے کچھ فاصلے پر پشاور کے ادبی محاذ پر دریائے سندھ جیسا طمطراق رکھنے والے فارغ بخاری، رضا ہمدانی،نذیر مرزا، شوکت واسطی، خاطر غزنوی، احمد فراز، محسن احسان اور حفیظ اثر نے بھی محبتوں اور عصبیتوں ، لطافتوں اور کثافتوں کے بیچ ایسی ہی ایک لکیر کھینچ رکھی تھی۔ان کی جلائی ہوئی شمعوں سے پھوٹتی روشنی اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ خیبر پختون خوا کی پہچان کوئی طالبان، کوئی لشکر یا کوئی اسمگلر نہیں بلکہ دل و دماغ میںفکر و فن کے چراغ جلانے والے شاعر ، ادیب اور فنکار ہیںجو اپنے اپنے حصے کی جوت جگاتے، ناچتے گاتے، آتے جاتے رہتے ہیں۔
اسی طرح کا ایک جمگھٹا کبھی کراچی میں بھی لگتا تھا۔جس کے عینی شاہد ممتاز رفیق ہیں۔منٹو کے گنجے فرشتے سے ممتاز رفیق کے تصویر خانہ تک آتے آتےخاکہ نگاری کے فن نے بہت سی کروٹیں لی ہیں۔منٹو کے فرشتے تو آج تک گنجے ہیں۔بالوں کی پیوند کاری کا پھیلتا ہوا کاروبار بھی ان کا بال بیکا نہیں کر سکا۔دیکھنا یہ ہے کہ ممتاز رفیق کے نگار خانہ میںسجی رنگ برنگی تصویروں کی آب و تاب کب تک برقرار رہتی ہے۔ان پینٹنگز میں ایک خالی تصویر بھی ہے جو ممتاز رفیق کی اپنی ہے۔
اس خالی تصویر میں رنگ بھرا جائے تو جو شکل ابھرتی ہےوہ ایک ایسے تماش بین کی ہے جو منہ سے کچھ نہیں کہتا ۔پان کی گلوری مسلسل چباتا رہتا ہے اور بلور کی طرح گھومتی آنکھوںسے دادِ عیش دیتا ہے۔یاردوست اسے بیداد سمجھیں تو ان کی اپنی فہم ہے۔ممتاز رفیق کے ہاتھ میں مسخ آئینہ آ گیا ہے۔جس میں وہ اپنے احباب کی بگڑی ہوئی شکلیں اتارتا ہےاور چاہتا ہے کہ اس کی زیرلب مسکراہٹ کو ایک بھرپور اجتماعی قہقہے میں تبدیل کر لیا جائے لیکن ہم جس تقویم میںزندہ ہیں وہاں جیسے جیسے چائے خانوں میں رات گئے تک بیٹھنے کی روایت اٹھتی جا رہی ہے، اجتماعی قہقہے کی گونج بھی کم کم ہی سنائی دے رہی ہے۔اجتماعی تشدد عام ہے جو جسمانی و ذہنی اذیتوں سے ہوتا ہوا معاشی قتل عام تک آ پہنچا ہے۔ایسے میں ممتاز رفیق کا آئینہ دکھانااور سانولے سانوریا انور شعور کا ماتھے پر سلوٹیں ڈال کر ایک انگلی سے اشارہ کرنا کہ "آئینہ نہیں توڑتے منہ دیکھ کے اپنا" گئے گزرے زمانوں کی بات لگتی ہے۔
ان زمانوں میں قمر جمیل کا نام فرنچ بُل رکھ دیا جائے تو وہ برا نہیں مانتے تھے۔دلاور فگار کو مردِ بسیار کا خطاب دیا جا سکتا تھا۔منیر نیازی کی مشکل پسندی آڑے آجائے تو انہیں اوکھا منڈا کہہ سکتے تھےاور عبیداللہ علیم حد سے زیادہ بسیار گوئی پر اتر آئیں تو ان پر بچہ جگت باز کی پھبتی کسی جا سکتی تھی۔ممتاز رفیق کے تصویرخانہ میں بھید بھری سارا شگفتہ کا ہر مجنوں عریاں دکھائی پڑتا ہے۔جامنی لڑکی سے جمال چوکور تک پھیلے ہوئے قبیلے کا ہر فرد اپنی جگہ ایک تصویر ہے جس کے سارے رنگ نمایاں ہیں۔
ممتاز رفیق نے کراچی کے ادبی اکھاڑے میں نوراکشتی کرنے والے "پہلوانوں" کی جو خاکہ نگاری کی ہے اس کی داددینے کے لیے زیب اذکار حسین کے تخلیق کردہ اس انوکھے کردار کی ضرورت ہے جو کسی سے کلام نہیں کرتا بلکہ ہر ملنے والے کے باطن میں چھپی خباثتوں کے ساتھ دشنام طرازی کرتا ہے۔نثر لکھتے لکھتے شاعری پر اتر آتا ہے اور شاعری کرتے کرتے کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی کی مثال بن جاتا ہے۔ممتاز رفیق کا وتیرہ یہ ہے کہ ایک ہی جگہ معلق رہنے والے برقی پنکھےکو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔نتیجے میں پنکھے کےپروں پر جمی گرد رُخِ ممتاز کو نئے انداز کی غازے سے سرفراز کر دیتی ہےاور ممتاز رفیق اپناچہرہ صاف کرنے کے بجائے دوسروں کی صفائی ستھرائی کا فریضہ انجام دینے لگتے ہیں۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں