ترکی اور تعلیم ۔ 78

مولانا جلال الدین رومی اسٹوڈنٹ ایکسچینج پروگرام

332168
ترکی اور تعلیم ۔ 78

"محبت میں آفتاب کی طرح، دوسری اور بھائی چارگی میں کسی ندی کی مانند، خطاوں کو چھپانے میں کسی شب کی طرح، انکساری میں مٹی کی طرح، خفتگی کے وقت کسی مردے کی طرح بنو، چاہے تم جو کوئی بھی ہو، جیسے بھی ہو ویسے ہی رہو۔"
دوستوموسم گرما کے ایک خوشگوار دن ترکی اور تعلیم نامی اس سلسلہ وار پروگرام کے ساتھ ایک بار پھر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
گرمیوں کا موسم سستاتے ہوئے توانائی کا ذخیرہ کرنے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کا موسم ہوتا ہے۔ سوچنے سمجھنے، تحقیقات کرنے اور اپنے آپ کو تھوڑا بہت مزید جاننے کی کوشش کرنےسے آئندہ کے ایام میں منتخب کیے جانے والے پیشے اور کیریئر کے اہداف بھی واضح ہونے لگتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس سلسلے کو گزشتہ برس کی طرح امسال بھی بلا کسی عدم تسلسلی کے جاری رکھنے اور آپ کو اپنے مستقبل کا تعین کرنے میں معاون ثابت ہونے کے لیے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بین الاقوامی تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے ہمارے اس پروگرام کی آج کی قسط کو شاعر، مفکر اور صوفی مولانا جلا الدین رومی کے خوبصورت اقوال کے ساتھ شروع کیا گیا۔ اپنی تعلیمات کی بدولت روحانی خوبصورتی ، درستگی اور بھائی چارگی کی اہمیت پر زور دینے والے جلال الدین رومی صدیوں سے دنیا بھر کے انسانوں کے لیے ایک رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ہم آج اس اہم اور ممتاز مفکر کی تعلیمات کا پرچار کرتے ہوئے اعلی تعلیم کے حصول کے خواہاں طالب علموں کو دنیا بھر کے دروازوں کے کھٹکھٹانے والے مولانا ایکسچینج پروگرام سے آگاہی کروا رہے ہیں!
مولانا ایکسچینج پروگرام کے بارے میں بات کرنے سے قبل آئیے اس پروگرام کو اپنے نام سے منسوب کرنے والی اس ممتاز ہستی کہ جس کا اصلی نام محمد جلال الدین تھا کے بارے میں مختصر بتاتے چلیں۔
جلال الدین موجودہ افغانستان کی سرحدوں کےا ندر واقع ہوراسان علاقے کے شہر بیلھ میں سن 1207 میں پیدا ہوئے۔ان کے شائقین اور پرستاروں نے آپ کو مولونا کہہ کر پکارنا شروع کر دیا جس نے بعد میں ان کی ذات کے ساتھ ایک کائناتی حیثیت حاصل کر لی۔ مغرب میں انہیں رومی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
تیرہویں صدی میں زندگی بسر کرنے والے ، لیکن اپنے شہہ پاروں کی بدولت ہر دور میں اپنے وجود کو ظاہر کرنے والے صوفی جلال الدین رومی نے جیسا کہ ان کے قول " جو بھی ہو چلے آو" سے واضح ہے کہ آپ نے بنی نو انسانوں کے درمیان کبھی بھی تفریق بازی سے کام نہیں لیا تھا۔ لا متناہی انسانی محبت سمیت رواداری کی بدولت انہیں نہ صرف مسلم اُمہ میں بلکہ تمام تر بنی انسانوں میں بڑی عقیدت و احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔
زندگی اور انسانوں کے لیے اپنے نقطہ نظر کی بدولت انہیں ایک مفکر کی حیثیت سے دنیا بھر میں شہرت حاصل ہے۔ یونیسکو نے جلال الدین کی 800 ویں سالگرہ کی مناسبت سے سن 2007 کو سالِ رومی اور رواداری و انکساری کا سال قرار دیا تھا۔
انہوں نے حصول تعلیم کے دوران اپنے دور کے مختلف ملکوں اور شہروں میں واقع تعلیمی انسٹیٹیوٹس کے بحیثیت طالب علم اور عالم فاضل شخصیت دورے کیے تھے۔ مولانا کی زندگی اور فلسفے میں " تبدیلی" کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ آپ کی متعدد اعلی پائے کی تصانیف میں مقبول ترین مثنوی ہے۔
پیارے دوستو، تو آئیے اب مولانا ایکسچینج پروگرام کا تعارف کراتے ہیں۔۔۔
اس پروگرام سے استفادہ کرنے والے نوجوان دوست عمومی طور پر اسے اپنی زندگیوں کے اہم ترین موڑ کے نظریے کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ ہم آئندہ کی قسط میں اس تجربے سے گزرنے والے بعض دوستوں کے خیالات کو آپ کی خدمت میں گوش گزار کریں گے۔
مولانا ایکسچینج پروگرام، ترکی میں تعلیم فراہم کرنے والے اعلی تعلیمی اداروں اور دیگر ملکوں کے اعلی تعلیمی داروں کے درمیان تبادلے کا موقع فراہم کرنے والا ایک پروگرام اور سنہری موقع ہے۔
دیگر ایکسچینج پروگراموں سے ہٹ کر اس میں کسی قسم کی جغرافیائی تفریق بازی یا پھر شرط نہیں رکھی گئی اور اس کے حدود دربعہ دنیا بھر تک محیط ہے۔
ایکسچینج پروگرام میں شرکت کرنے کے خواہاں طالب علم کم سے کم ایک سمسٹر اور زیادہ سے زیادہ دو سمسٹروں تک اس پروگرام سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ جبکہ لیکچرار حضرات کم سے کم ایک ہفتے اور زیادہ سے زیادہ تین ماہ کی مدت تک عالمی اداروں میں تدریسی کے فرائض ادا کر سکتے ہیں۔
اسی طرح دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طالب علم بھی ترکی کی مختلف یونیورسٹیوں میں ایکسچینج پروگرام کی وساطت تعلیم حاصل کرنے کا موقع حاصل کرسکتے ہیں۔
مولانا ایکسچینج پروگرام کا اولیت کا مقصد ترکی میں تعلیم فراہم کرنے والے اداروں اور دیگر ملکوں کے اداروں کے درمیان طالب علموں اور اساتذہ کا ایکسچینج ہے۔
علاوہ ازیں اس پروگرام کے بنیادی مقاصد کچھ یوں ہیں؛
ترکی کو تعلیم کے شعبے میں ایک جاذب نظر مرکز کی حیثیت دلانا،
اعلی تعلیم کی جہاں شمولیت میں خدمات ادا کرنا،
ترکی کے کثیر ثقافتی و تاریخی سرمائے کو دنیا بھر سے متعارف کروانا،
بین الاثقافتی تعاون کو فروغ دینا اور مختلف دینوں اور ثقافتی اقدار کے سامنے رواداری اور خوش اسلوبی کا مظاہرہ کرنا وغیرہ۔۔
یہ آخری مقصد مولانا کی تعلیمات کا مکمل طور پر پر چار کرتا ہے۔ کیونکہ رواداری ، انکساری اور ملنساری مولانا جلال الدین رومی کا نصب العین تھا۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں