کوچۂ فن و ادب - 25

زیب نے زندگی کی تلخیوں اور کٹھنائیوں کو بہت قریب سے دیکھا اور برتا ہے۔اس کے کردار مروجہ فسانہ طرازی کے لیے تو اجنبی ہو سکتے ہیں۔لیکن گلیوں، بازاروںمیں بکھری ہوئی روزمرہ زندگی انہی کرداروں کی بدولت سانس لیتی ہے

323396
کوچۂ فن و ادب - 25

اُردو افسانہ نئی کروٹیں لے رہا ہے۔ پچھلے دنوں ایک نامور افسانہ نگار کراچی تشریف لائے تو بہت مایوس دکھائی دیے ۔لیکن اب جو زیب اذکار حسین کے افسانوں کی کتاب "دُور ازکار افسانے"سامنے آئی ہے تو لگتا ہے ٹوٹے ہوئے آئینے کی کرچیاں پھر سے جڑنے لگی ہیں۔زیب نے کہانی کا موضوع تبدیل کر دیا ہے۔بلکہ کہانی کو الوداع کہتے ہوئے تمثیل نگاری کو نیا موڑ دیا ہے۔زیب کے اندازِ نگارش نے مختلف کرداروں میں اپنے آپ کو ڈھالنے کے بجائے سب کے سب کردار اپنی ذات کا حصہ بنا لیے ہیں۔خودکلامی کا یہ انداز بہت سے سربستہ راز افشا کرتے ہوئے نئے زمان و مکاں کی تجسیم کرتا دکھائی دیتا ہے۔لفظ مشکل نہیں ہوتے، ادائیگی مشکل ہوتی ہے۔"لے، لام کی مشکل" نے اب یہ آسانی پیدا کردی ہے۔
زیب نے زندگی کی تلخیوں اور کٹھنائیوں کو بہت قریب سے دیکھا اور برتا ہے۔اس کے کردار مروجہ فسانہ طرازی کے لیے تو اجنبی ہو سکتے ہیں۔لیکن گلیوں، بازاروںمیں بکھری ہوئی روزمرہ زندگی انہی کرداروں کی بدولت سانس لیتی ہے۔انسان اپنے اندر کی کمزوریوں اور خامیوں کو تسلیم نہیں کرتا۔انا پرستی اور خودپسندی نے ہمیں اوریجنلٹی سے دور کر دیا ہے۔ہم اپنے اندر کی ابنارملٹی پر نام نہاد ہوش مندی کی ملمع کاری کرتے ہوئے مصنوعی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔لیکن زیب کے کردار کہیں بھی اپنی بشری کمزوری کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتے۔خوشی کی خواہش میں سنگین خوابوںکو پسند نہیں کیا جاسکتا۔دن کا اجالا، شبِ سیہ کا سندیسہ۔۔۔سب مل جل جائیں تو پھر بھی اپنا نام نہ لے پائے آدمی۔۔۔اپنے اختیارکی قیمت تو چکانا پڑتی ہے۔
فرائیڈ کے علم ِ نفسیات سے لے کر منٹو کے ٹوبہ ٹیک سنگھ تک۔۔۔ادیبوں کی ابنارملٹی نے عام آدمی کی نفسیاتی ستر پوشی سے جہاں جہاں بھی گریز کیا ہے۔نئی ، اچھوتی اور زندہ رہ جانے والی تخلیقات نے جنم لیا ہے۔انہی تخلیقات کی بدولت آج ہم میرا جی ، آسکر وائلڈ، کالرج،ارنسٹ ہیمنگ وے، نطشے، بائرن، گورکی اور دوستوفسکی کو جانتے اور مانتے ہیں۔دوستوفسکی کا ایک کردارجوئے کا شوقین اور مرگی کا مریض ضرور ہوتا ہے۔کالرج افیون کھاتا تھا۔آسکروائلڈ ہم جنس پرستی کے مرض میں مبتلا تھا۔گورکی اپنے خاندانی حالات کی وجہ سے تکلیف دہ صورتحال کا شکار رہا۔ارنسٹ ہمنگ وے نوبل انعام یافتہ ہونے کے باوجود خودکشی کر نے پر مجبورہوا۔اسی طرح بائرن کی جنسی زندگی بھی ابنارملٹی کی زندہ مثال تھی۔
زیب کی کہانی "خودکشی کے احترام میں"پڑھی جائے تو ایک ادیب کے اندر پائی جانے والی دیوانگی کی تمام پرتیں ایک ایک کرکےکھلنے لگتی ہیں۔"آج کا تہوار ہر شئے کو تہہ و بالا کرنے کے درپے ہے۔مسکراہٹیں ہیں کہ تھمتی ہی نہیں ہیں۔۔۔میں ہنسنے والوں کا ہم نوا نہیں ہوں۔۔۔میں الگ دنیا بسائوں گا۔۔۔کیا کوئی تاویل دی جاسکتی ہےکہ اس دکھ میں قدرے کمی واقع ہو جائے ۔۔۔۔مجھے پیاس بہت لگتی ہے اور میں بازاروں سے بہت گھبراتا ہوں۔۔۔میں ناپسند کرتا ہوں کہ چند افراد کے روبروبھی میری تذلیل کی جائے۔۔۔متضاد باتوں نے افسردہ احساس کا خون کر دیا ہے۔۔۔تجسس کی جگہ مایوسی نے سنبھال لی ہے۔۔۔اب یہاں غصہ اور خاموشی قبضہ جمائیں گے۔۔۔یہ زندگی کے اوہام سے نجات حاصل کرنے کا دن ہے اور یہی خوشی کا دن ہے۔۔۔خداحافظ، ایوب اور یحیٰ کے قصے سن چکا۔۔۔اب کچھ اور سننا چاہتا ہوں"۔
دس پریشانیوں کی رخصتی اوربیس مسائل کی آمد آمد سے پہلے بے زبان کا خواب ناپسندیدہ وقت کی طرح آتا ہے۔جس میں ہر دوسری شئے گمراہ کرنا چاہتی ہے۔۔۔بدنصیبی کا خواب خوف سمیت سوار ہونے لگتا ہے۔۔۔بڑی مسجد اور انتظام موجود ہے کے الفاظ سے بھی وحشت محسوس ہوتی ہے۔اور "آخر کار تم نے مجھے پکڑ ہی لیا" کی رونگھتے کھڑے کر دینے والی خودکلامی شروع ہوتی ہے۔جس نے موت کے ساتھ مکالمے کوایک ایسی تمثیل میں تبدیل کر دیا ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے قرب وجوار میں کچھ اور قریب سے ہو کر چلی جاتی ہےاور سانسوں کی صف بندی میں ہم تعاون کے متمنی ہونے لگتے ہیں۔
کہیں حادثے کی خبر ہوئی تو فضا کی سانس اکھڑ گئی
کوئی اتفاق سے بچ گیا تو خیال تیری طرف گیا
زیب کی کہانیوں میں بکھرے ہوئے کردار کسی نہ کسی حادثے سے دوچار دکھائی دیتے ہیں۔"کریزی" ایک حادثے کی طرح آپ کی زندگی میں داخل ہوتا ہے اورپھر آپ ایک چھوٹے سے بے زبان جانور سے بلاوجہ خوف محسوس کرنے لگتے ہیں۔سازش پر اتر آتے ہیں ۔پھر اچانک آپ کو کتے کے ضمیر کا خیال آتا ہےاور آپ اپنی حالت پر خود ہی ہنسنے لگتے ہیں۔دماغ اور ضمیر کی جنگ کے بارے میں کئی خیالات آپ کے دل ودماغ میں کلبلانے لگتے ہیںاور آپ سوچنے لگتے ہیں کہ جانور یقینی طور پرصاف ضمیر کے مالک ہوتے ہوں گے۔اسی لیے تو آپ کریزی کا چیک اپ کرانے کے بجائے اپنا چیک کرانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔زیب کی کہانیوں میں کہیں بھی آپ کو اپنا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔یہ ٹُنڈ منڈ تحریریںہماری الجھی ہوئی ذات کا عکس ہیں۔اگر آ پ ایک بار زیب کے مزاج کو سمجھ لیں گے تو پھر کہیں بھی تحقیق میں دشواری کا مرحلہ درپیش نہیں ہو گا۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں