کوچۂ فن و ادب - 23

ممتاز سومرو محکمہ ء تعلیم میں ملازم تھا اسی لیے اکثر چھٹیوں پر رہتا تھا۔پھر اس نے اپنا تبادلہ کراچی سے لاڑکانہ کروا لیا۔برسوں بعد واپس آیا تو "رات کی رانی" کی شکل میں اپنی شاعری کی خوشبو ساتھ لایا

312738
کوچۂ فن و ادب - 23

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ماروی کے ملیر کی رفاع ِعام سوسائٹی میں بزم ِ علم و دانش کی چوپال سجا کرتی تھی۔ہفتہ وار تنقیدی نشستوں کے ساتھ ساتھ مہینے میں ایک بار "آرٹ مووی" بھی دیکھی جاتی اور پھر اس پر گفتگو کا سللہ رات گئے تک جاری رہتا۔آبِ تفکر کے جلترنگ کی رم جھم میں ڈھلتی راتوں کا خمارآج بھی ایک خوشگوار یاد کی طرح ان تمام ساتھیوں کی زندگی کا اثاثہ ہے جو ان محفلوں میں شریک رہے ہیں۔ان محفلوں میں ایک نوجوان ایسا بھی تھا جو بہت کم گو تھالیکن اس کی نیلی نیلی آنکھیں اس کے دل و دماغ میں طوفان اٹھاتے سوالوں کا پتہ دیتی تھیں۔سندھی میں شاعری کرنے والے اس نوجوان کی ایک نظم جو بار بار سنی جاتی اور ہر بار ایک نئے احساس اور نئے تاثر سے روشناس کراتی کچھ یوں تھی۔
کہتے ہیں یہ دنیا بہت رنگین ہے
لیکن میرے جیون کے کیمرے میں جو رول ہے
شاید وہ بلیک اینڈ وائٹ ہے
ممتاز سومرو محکمہ ء تعلیم میں ملازم تھا اسی لیے اکثر چھٹیوں پر رہتا تھا۔پھر اس نے اپنا تبادلہ کراچی سے لاڑکانہ کروا لیا۔برسوں بعد واپس آیا تو "رات کی رانی" کی شکل میں اپنی شاعری کی خوشبو ساتھ لایا ۔چھوٹی چھوٹی نظموں میں بڑی بڑی باتیں کرنے والا یہ نوجوان اب فکری لحاظ سے بہت پختہ کار لگتا ہے۔شاعری کے بارے میں اس کا اپنا ایک تصور ہے۔وہ کہتا ہے خودکشی کے ہزاروں طریقے ہو سکتےہیں۔شاعری بھی ان میں سے ایک ہے۔قدیم چین میں ایک کلونمک پانی میں گھول کر پینے سے خودکشی کرنے کا رواج عام تھا۔ممتاز سومرو ہم سب سے سوال کرتا ہے کہ عام طور پر انسان زندگی بھر میں کتنا نمک استعمال کرتا ہو گا؟اس کی نظر میں عظیم فن وہ ہے جو کوکھ رکھتا ہو اوراپنے بطن سے ایک دوسرے فن کو جنم دے سکے۔لطیف سرکار کی شاعری سے سچل سائیں نے جنم لیااور سچل کی شاعری سے جدید سندھی شاعری پیدا ہوئی۔ہر شخص کی اپنی ایک سچائی ہے۔شاعری تجربے کا اظہار ہے،چاہے وہ دکھ کا ہو یا خوشی کا۔روشنی کا ہو یا اندھیرے کا۔زندگی کا تجربہ کیوں کیا گیا؟ ممتاز سومرو کے سامنے ابھی تک یہ سوال حل طلب ہے۔جسے وہ اپنی ایک نظم "جامشوروپل" میں اس طرح بیان کرتا ہے۔
"اے جامشورو کے پُل۔۔۔اب بس کرو۔۔۔تم نے زندگی کے تھکے ہوئے مسافروں کو عکس دکھا کر۔۔۔دھرتی کا بہت کچھ بہا دیا ہے۔۔۔اے جامشورو کے پُل ۔۔۔دھرتی شاید تمہیں کبھی نہ بخشے"۔
جب اسے اپنے سوالوں کا جواب کہیں نہیں ملتا تو وہ یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کائنات اتنی وسیع ہے۔یہ جان کر وہ کیا کرے گا کہ کون سی چیز صحیح جگہ پر ہے اور کون سی غلط جگہ پر۔۔۔پھر وہ ایک درخواست لکھتا ہے۔
"دنیا میں کہیں بھی ، کسی کے پاس بھی ۔۔۔۔ہمدردی کا ایک ذرہ بھی موجود ہے تو۔۔۔ڈاک میں میری طرف ارسال کرے۔۔۔۔میں ویران شہر کے سنسان ریلوے اسٹیشن پر۔۔۔پلیٹ فارم کے آوارہ کتوں کے ہمراہ ۔۔۔۔ہمدردی کی ہڈی کا منتظر ہوں"۔
مایوسی کے اس عالم میں بھی شاعرانہ رجائیت اس کا دامن نہیں چھوڑتی اور کچھ دیر یاسیت کا شکار رہنے کے بعد وہ امید اور محبت کی طرف مراجعت کرنے لگتا ہے۔مسلسل جنگوں نے دنیا کو کسی بوڑھے شخص کے چہرے کی جھریوں میں تبدیل کردیا ہے۔آنکھیں پلکوں کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتےکسی پرانی دیوار کی طرح ڈھے جاتی ہیں۔پھر تبھی اچانک آدمی میںمحبت کی طرف لوٹنے کی ہلجل پیداہوتی ہے اور محبوب کی آنکھیںہی اس کی پناہ گاہ ٹھہرتی ہیں۔
تمہاری آنکھیں میرے لیے
آخری پناہ گاہ ہیں
حالانکہ میدانِ جنگ سے میں
ہار جیت کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی نکل آیا ہوں۔
محبت ، ثقافت اور دانش کی سرزمین سندھ کے خمیر سے جنم لینے والاکوئی بھی شاعراپنے جوہر سے ہم کلام ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا۔ممتاز سومرو بھی جب اپنے اصل کی طرف لوٹتا ہے توامیداور رجائیت کی کرنیںاس کی آنکھوں میں چمک پیدا کرتی ہیںاور وہ اپنے خوابوں کی تعبیر کا وقت بہت قریب محسوس کرتا ہے۔
"وہ وقت دور نہیں ہے ۔۔۔جب کلاشنکوف اور ایٹم بم۔۔۔عجائب گھر میں دیکھنے چلیں گے ۔۔۔ہمارے بچے۔۔۔ہاتھ ہلا کر ان کے متعلق جاننا چاہیں گے ۔۔۔۔اور ہم بتانے سے قبل ۔۔۔ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دیں گے ۔۔۔ وہ وقت دور نہیں ہے "۔
جدید سندھی شاعری نے اپنی گہرائی اورگیرائی کے ساتھ ساتھ آج کے انسان کے مسائل کو جس انداز میں مخاطب کیا ہے اس نے ایک نئے مکالمے کو جنم دیا ہے۔یہ مکالمہ تھر کی پیاسی دھرتی پر گرنے والی بوندوں کے لمس کی طرح ہےجو ہمارے خوابوں، خواہشات اور جذبات میں ایک تحریک پیدا کرتا ہے۔ممتاز سومروں کے جیون کے کیمرے کا رول اگرچہ بلیک اینڈوائٹ ہے لیکن اس کی شاعری میںپائے جانے والے رنگ بہت گہرے اور سنہرے ہیں۔جیسے جیسے اس کی نظمیں کھلنے لگتی ہیں ، دل و دماغ کے ریگستان میں بارش ہونے لگتی ہے۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں