کوچۂ فن و ادب - 22

رخسانہ سحر کی غزلوں اور نظموں کو بھی بنجر فکر کی گدلی عینک سے نہیں ،شفاف پانیوں جیسے کانٹیکٹ لینس سے دیکھا جائے تو سردیوں کے چاند سے مہکتی سنہری راتوں میں یہ شاعری کافی سے اُٹھتے دُھوئیں کی طرح اپنا جواز خود پیدا کرتی ہے ۔چاندنی راتیں رخسانہ کی سہیلیاں س

312726
کوچۂ فن و ادب - 22

جدید اردوشاعری متناسب نمائندگی اور مردانہ و زنانہ حلقہ بندیوں سے نکل کرخالص انسانی جذبات، احساسات اور نظریات کا بنیادی حوالہ بنتی جا رہی ہے ۔دائیں ، بائیں بازوئوں سے بندھی تحریکوں کی موم بتیاں کنزیومر سوسائٹی کی چکا چوند میں مدھم ہوتی جارہی ہیں۔سستے رومانس اور ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔۔۔‘‘ والی جدیدیت کی داخلیت کو دیمک چاٹ رہی ہے اور خارجیت کی دیواروں پر نیم حکیموں اور نیم ادیبوں کے تجویز کردہ نسخے کندہ ہیں ۔
ایسے میں کوئی نئی آواز سنائی دے اور اس میں تازگی و شگفتگی کے ساتھ ساتھ اپنی بات کہنے کی لگن بھی موجود ہوتو روایت و جدت کی بحث میں اُلجھے بغیر ،پختگی و ناپختگی کے کٹھن معیاروں کو پرکھے بِنا، اظہار کی کچھ نئی صورتوں اور قدرے مختلف جہتوں کو دیکھنا اور سمجھنااتنا ہی ضروری ہے جتنا ازخود روایت کی پاسداری ہے۔
رخسانہ سحر کی غزلوں اور نظموں کو بھی بنجر فکر کی گدلی عینک سے نہیں ،شفاف پانیوں جیسے کانٹیکٹ لینس سے دیکھا جائے تو سردیوں کے چاند سے مہکتی سنہری راتوں میں یہ شاعری کافی سے اُٹھتے دُھوئیں کی طرح اپنا جواز خود پیدا کرتی ہے ۔چاندنی راتیں رخسانہ کی سہیلیاں ہیں اور پھولوں کا موسم اس کے خوابوں کا شہزادہ ۔۔۔سہیلیوں سے وہ شاعری کی زبان میں دل کی باتیں کرتی ہے اور شہزادے کے لیے اِک شوق ِ مسافت ہے کہ پازیب ہوا جاتا ہے ۔۔۔چاہتوں اور جذبوں کی خوشبوئے بے کنار کا حصار ہے جو اسے
خواہشات کی گرد اور رائیگانی کے ملگجی سائے سے محفوظ رکھتا ہے۔۔۔اُس کی عمر کا حاصل یہی شاعری ہے ۔۔۔یہی اس کا سفر ہے اور یہی اس کی منزل ۔۔۔دوسرا پڑائو آ گیا ہے ۔۔۔رُخسانہ نے ہمت نہ ہاری تو منزل اِتنی دُور نہیں ۔
ہو تم سورج محبت کے سحر مجھ کو بھی کہتے ہیں
اندھیروں کو مٹائوں گی، تمہیں میں جیت لائوں گی
دُنیائے ادب کی بے مثال شاعرہ فہمیدہ ریاض بھی رُخسانہ سحر کے حوالے سے خاصی پراُمید دکھائی دیتی ہیں۔ لکھتی ہیں" سرکش، پرعزم تیور، خلوص اور جذبہ و خیال کو لفظوں میں ڈھالنے کی فطری خواہش، رُخسانہ سحر کی شاعری ان ہی تین خصوصیات سے مل کر بنی ہے۔ اس جواں سال شاعرہ کے کلام میں " کیسے دروازہء شب تم پہ کشادہ ہو گا" جیسے اعلیٰ پائے کے مصرعے ملتے ہیں اور قافیہ پیمائی کی جگہ جا بہ جا تروتازہ خیالات اور عمدہ مضامین نظر آتے ہیں۔سحر کی شاعری میں اس کی قلبی واردات ، جذبہء محبت اور تازگیء فکر کے تانے بانے سے ہم عصر نسوانی شعور بھی نمودار ہوتا ہے اور ہم اس نئی عورت کا چہرہ دیکھتے ہیںجسے اپنی زندگی خود جینے کی آرزو ہے۔فہمیدہ ریاض رُخسانہ سحرکو شعرو ادب کے بے کنار میدان میں خوش آمدید کہتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ آثار بتارہے ہیں کہ رُخسانہ کا سفر طویل اور بہت یادگار ہوگا۔
ایک معروف شاعرہ شبنم شکیل کے خیال میں وقت کے ساتھ ساتھ رُخسانہ سحر کے اندازِ فکر میں ایک واضح تبدیلی محسوس کی جاسکتی ہے۔ اگر وہ خود کسی مصرع میں کہتی ہے کہ میں نے کچے پکے لفظوں کو جوڑ کر شاعری کی شکل دی ہے تو وہ غلط نہیں کہتی۔۔۔مگر یہ کچا پن ایسے ہی اس پر جچتا ہے جیسے کچی مٹی پر بارش کا چھینٹا پڑنے سے ایک عجب سی سوندھی سوندھی خوشبو اُٹھتی ہے۔یہ خوشبو دنیا کے بڑے اچھے سے اچھے اور مہنگے ترین پرفیوم سے زیادہ مسحور کن ہوتی ہے۔
رات آئی تو چھٹ گئی ہے سحر
اک دیے میں سمٹ گئی ہے سحر
دیکھتے رہ گئے ہیں شب زادے
پردہء شب اُلٹ گئی ہے سحر
۔۔۔۔۔
میں اک ادھورے سوال جیسی
مرا مکمل جواب ہو تم
اگر میں ناکام ہو گئی ہوں
تو کون سے کامیاب ہو تم
۔۔۔۔۔
سید عارف نے رخسانہ سحر کو خوبصورت جذبوں کی شاعرہ قرار دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ شاعری دراصل رنگ، خوشبواور روشنی کا نام ہے اور خوش قسمت اور عظیم ہیں وہ لوگ جو رنگ، خوشبو اور روشنی کو استعمال کر کے معاشرے کو بناتے ، سنوارتے اور نکھارتے ہیں۔رخسانہ سحر کا شمار بھی یقینی طور پر انہی لوگوں میں ہوتا ہے جو سماجی بدصورتیوں کو جمیل جذبوں سے عام کرکے ماحول کو خوبصورت بنانے میںاہم کردار اداکرتے ہیں۔رخسانہ کی شاعری بنیادی طور پر محبت کی شاعری ہے جو تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اسی اُلوہی جذبے کے گردگھومتی ہے ۔لیکن اس کی شاعری کے اندر چھپا اضطراب اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کی محبت کی دنیا ابھی نامکمل اور ادھوری ہے اور وہ مسلسل اپنے خوابوں کی تعبیر کے تعاقب میں سرگرداں ہے۔
بجھتے ہوئے دیے کو بچانے لگی ہوں میں
خود کو ہوا کے سامنے لانے لگی ہوں میں
اے گردِ خواہشات میری ہم سفر نہ ہو
دامن یہاں سے جھاڑ کے جانے لگی ہوں میں
اک عمر تجھ کو یاد بھی رکھا گیا تو کیا
یہ حادثہ بھی دل سے بھلانے لگی ہوں میں


ٹیگز:

متعللقہ خبریں