عالمی ایجنڈا۔ 127

296653
عالمی ایجنڈا۔  127

عالمی پالیسی سات ارب سے زائد انسانوں ،200 ممالک اور ہزاروں شہری تنظیمیں کی طرف سے عالمی سطح پر جاری سرگرمیاں کی نشاندہی کرتی ہے ۔ لیکن یہ پالیسی ان تمام عناصر کی مساوی شمولیت کے بجائےان میں سے سپر مملکتوں کے اثر سے شکل اختیار کرتی ہے ۔دنیا میں پیش آنے والے تما م واقعات نہ سہی لیکن اکثر واقعات کی تشکیل میں سپر طاقتیں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ عالمی سطح پر تعلقات کو خود بخود رخ نہیں ملتا ہے بلکہ بڑی طاقتوں کے مختلف طریقہ کار ، مداخلتوں، جھڑپوں یا پھر تعاون کے نتیجے میں رخ دیا جاتا ہے ۔ اس عمل میں سپر طاقتوں کے درمیان تعاون یا جھڑپوں کی شکل میں جو جدوجہد پائی جاتی ہے اسے برائے راست نہیں بلکہ سپر طاقتوں کے زیر اثر علاقوں اور عالمی سطح پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سپر طاقتیں اپنی برتری اور طاقت کی جدوجہد کو اہم علاقوں میں اور حلیف ممالک کی وساطت سے جاری رکھتی ہیں ۔عالمی پالیسی میں یہ عمل اکثر اوقات واضح نظر نہیں اتا ہے ۔اس معاملے میں ماہرانہ محتاط رویہ اختیار کرنے اور کوششیں صرف کرنے کی ضرورت ہےاور یہ کام یونیورسٹیوں اور شہری تنظیموں میں موجود بین الاقوامی تعلقات کے اساتذہ اور ماہرین ہی انجام دے سکتے ہیں ۔
مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ۔۔۔
۔۔۔اس وقت عالمی پالیسی کا اہم ترین معاملہ یورپ افریقہ اور ایشیا کے براعظموں میں یوکرین اور شام کے مسائل کے دائرے میں موجود چار سپر طاقتوں کے درمیان طاقت کی تبدیلی ہے ۔ یوکرین اور شام کے بحرانوں نے امریکہ اور یورپی یونین کی طاقت کو کمزور بنا یا ہے اور اس کے مقابلے میں چین اور روس طاقتور بن گئے ہیں ۔ روس کیطرف سے یوکرین کے حصے کریمیا کو اس سے جدا کر تے ہوئے الحاق کرنے اور تمام تر کوششوں کے باوجود شام میں اسد اقتدار کو ختم نہ کروا سکنے سے امریکہ اور یورپی یونین پر کاری ضرب لگی ہے ۔مغربی ممالک کی یوکرین اور شام کی حکومتوں کو بدلتے ہوئے وہاں یورپی سسٹم لانے کی کاروائیاں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں اور اسکے مقابلے میں روسی پالیساں علاقے میں کامیابی کیساتھ جاری ہیں ۔
سپر طاقتوں کی کشمکش کے منفی نتائج نے نہ صرف سپر طاقتوں اور ان کیساتھ تعاون کرنے والے ممالک بلکہ یورپ ،مشرق وسطی اور عمومی طور پر پورے عالمی سسٹم کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔عالمی پالیسیوں میں جاری اس بھونچال نے اس علاقے اور پوری دنیا کو عدم استحکام میں دھکیل دیا ہے ۔ یوکرین کے عدم استحکام نے یورپی یونین اور شام کے عدم استحکام نےعالم اسلام کو ہلا کر دکھ دیا ہے ۔ یورپی یونین جو ایک زمانے میں یورپی علاقے کو شکل دیتی تھی اب سنجیدہ بحران کا شکار ہے ۔ یورپی علاقے میں اپنے اثرورسوخ کو کھونے کے ساتھ ساتھ اسے سیاسی یکجہتی توانائی اور اقتصادی بحرانوں کا بھی سامنا ہے ۔یورپی یونین ہمسایہ ممالک اور قریبی جغرافیے میں اپنی جاذبیت کو کھو بیٹھی ہے ۔ خدشہ ہے کہ اگر یونان سے شروع ہونے والا اقتصادی بحران کو حل نہ کیا گیا تو وہ اسپین جیسے ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا ۔ یہ بحران یورپ کے دائرے کو محدود کرئے گا ۔ایک زمانے میں اپنے جوار کے علاقوں کا منظور نظر یورپ اب علاقائی مسائل کے زیر اثر آ گیا ہے ۔ان مسائل میں حالیہ چند ماہ میں بحیرہ روم کے راستے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن نے مزید اضافہ کرتے ہوئے یورپ کی لاچارگی کو بڑھا دیا ہے ۔
ایک طرف یورپی ممالک کی یورپ میں طاقت میں کمی آ رہی ہے اور دوسری طرف وہ امریکہ کیساتھ مل کر شام اور پورے مشرق وسطی میں تیزی کیساتھ اپنی ساکھ کھو رہا ہے ۔ وہ شام میں صدر اسد کو اقتدار سے ہٹانے میں ناکامی کیساتھ ساتھ علاقے میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنے کا سبب بنا ہے ۔داعش اور القائدہ جیسی دہشت گرد تنظیمیں نہ صرف علاقے بلکہ یورپی ممالک اور ان کی اقدار کو بھی چیلیج کر رہی ہیں ۔ یہ تنظیمیں مغربی ممالک کی روشن خیال اقدار اور کئی صدیوں سے دفاع کردہ پالیسیوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔
یورپی یونین اور امریکہ کی زیر قیادت مغربی ممالک کےمشرق وسطیٰ میں اثرو رسوخ میں کمی کی تین وجوہات پائی جاتی ہیں ۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین بہار عرب سے شروع ہونے والے جمہوری عمل کو جاری نہ رکھوا سکے۔ لیبیا مصر شام اور عراق میں مغربی ممالک کی اقدار کی پامالی کی گئی لیکن مغربی ممالک خاموش رہے۔ دوسری وجہ میڈیا اور سیاسی میدان میں بعض عناصر کے دعووں کیمطابق داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کو عالم مغرب نے براہ راست یا بلواسطہ امداد فراہم کی ہے۔یہ دعوے درست نہ بھی ہوں تو بھی ان دعووں کا ایجنڈے میں ہونے سے مغربی ممالک کے امیج کو نقصان پہنچا ہے ۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس کا اقوام متحدہ کے دائرہ کار میں یا اس سے الگ روس اور چین کیخلاف موقف اختیار نہ کرنا عالمی پالیسی میں طاقت کے رخ بدلنے کی واضح دلیل ہے ۔
طاقت کے توازن میں تبدیلی کو روکنے کے لیے یا اسے ماضی کی حیثیت دینے کے لیے بعض کوششیں جاری ہیں ۔پٹرول کی قیمتوں میں تیزی کیساتھ آنے والی کمی روس میں اقتصادی بحران کا سبب بنی ہے اور اس سے طاقت کی پالیسی پر منفی اثرات مرتب ہونے کا احتمال پایا جاتا ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روس کا اقتصادی بحران اسے یوکرین اور شام کی پالیسیوں میں تبدیلی پر مجبور کرئے گا ۔علاوہ ازیں اسوقت طاقتوراقتصادیات کے مالک چین کیطرف سے روسی بحران کے حل میں مدد گار ثابت ہونے کا احتمال بھی موجود ہے ۔

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں