کوچۂ فن و ادب - 21

ایک حقیقت ہے کہ جسمانی طور پرآسودہء خاک ہونے کے باوجود معنوی اور روحانی طور پراحمد فراز کی موجودگی کا احساس باقی رہے گا۔آپ کی پوری شاعری محبت اور انقلاب کے خمیر میں گندھی ہوئی ہے

298960
کوچۂ فن و ادب - 21

جبر کا موسم تھا۔ضیائی ظلمت کی صلیبیں دروازوں اور دریچوں میں گڑی تھیں۔طوافِ کوئے جاناں کے لیے نظر چرا کے اور جسم و جاں بچا کے چلنے کا عالم تھا۔ایسے میں دل و دماغ کو معطرکرتی ہوئی احمد فراز کی شاعری چیخ چیخ کر اپنے ہونے کا اعلان کر رہی تھی۔چیختی چنگاڑتی ہوئی یہ شاعری خوشبو کی طرح ملک کے طول و عرض میںپھیلی اور دیکھتے ہی دیکھتے احتجاجی تحریک کی شکل اختیار کرگئی۔ایک ایسی احتجاجی تحریک جس نے غزل میں احتجاج کو ایک نیا رنگ دیا اور آمریت کے بوجھ تلے دبے سماج کو مزاحمت کی ترغیب دی۔جاتے جاتے فراز کو گلہ تھا کہ پاکستان میں اب احتجاج کی شاعری دم توڑتی جا رہی ہے۔
صاحبو، پیچ بہت رکھتے ہو دستار کے بیچ
ہم نے سر گرتے ہوئے دیکھے ہیں بازار کے بیچ
یقین کرنا پڑے گا کہ اب کسی احتجاجی جلسے یا مشاعرے میں عجیب وضع کا شاعر احمد فراز نہیں آئے گا۔مسندِ صدارت پر اب بارہویں کھلاڑی ہی براجمان ہوں گے۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جسمانی طور پرآسودہء خاک ہونے کے باوجود معنوی اور روحانی طور پراحمد فراز کی موجودگی کا احساس باقی رہے گا۔آپ کی پوری شاعری محبت اور انقلاب کے خمیر میں گندھی ہوئی ہے۔آپ نے فیض کی طرح محبت اور انقلاب کو الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں کیا۔غمِ دنیا کی دل فریبی میں کھو کر محبوب کی یاد سے بے گانہ ہوئے نہ پہلے سی محبت کی عدم دستیابی کا رونا رویا۔احمد فراز کا بنیادی فلسفہ ہی محبت ہے۔یہ ایک ایسا لافانی احساس ہے جس سے نت نئے نظریات نمو پاتے ہیں اور آخر کاریہی نظریات انقلابی تحریکوں کو جنم دیتے ہیں۔بے پناہ سیاسی و سماجی شعور نے فراز کی شاعری کو دوآتشہ کر دیا ہے۔
پھر میرے مکہ سے پیغمبرہجرت کرکے چلا گیا ہے
اور کعبہ کے رم خوردہ بُت ، اصنام ِ طلائی
اپنی اپنی مسند پر آ بیٹھے ہیں
سچ کا لہو ان کے قدموں میں عنابی قالین کی صورت بچھا ہوا ہے
کم خوابی خیموں کے اندر بزم حریفاں پھر سجتی ہے
کذب و ریا کی دف بجتی ہے
یہ شاعری ایک ایسے سفر کی یاد دلاتی ہے جس کے راستے میں اونچے نیچے پربتوں کے درمیان سرسبز و شاداب وادیاں ہیں۔ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے ہیں۔چشموں سے پھوٹتے آبشار ہیں۔شفاف جھیلوں میں اترتے چاند کی جھلمل ہے۔ایبٹ آباد کی شملہ پہاڑی کے دامن میں کسی گڈریے کی بانسری سے نکلتی تانیں ہیںاور ایک رقصِ بسمل ہے جس نے محبت کرنے والے ہر دل کو پری خانہ بنا رکھا ہے۔اس پری خانے میں ہر صورت ایک مورت ہےاور ہر شکل سے سسی پنہوں ، ہیر رانجھے اور شیریں فرہاد کی شبیہیں ابھرتی ہیں۔احمد فراز نے پورے عہد کو محبت کا نصاب دیا ہے۔مکتب ِ عشق میں جس کسی کو چھٹی مل گئی اس کی حرماں نصیبی کا درماں بھی فراز کی شاعری ہےاور جس کو چھٹی نہ ملی اس کی بیاض ِ زیست ہر صفحے پر بھی فراز ہی کے اشعار نقش ہیں۔
شدتِ تشنگی میں بھی غیرتِ مئے کشی رہی
اُس نے جو پھیر لی نظر، میں نے بھی جام رکھ دیا
جیل ، جلاوطنی اور شہر بہ دری کے باوجود احمد فراز نے آخری سانس تک شکوہِ قلم کی لاج رکھی۔کراچی پریس کلب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جلاوطنی سے واپسی پر آپ نے اپنی مقبولِ عام نظم "معاصرہ" سب سے پہلے کراچی پریس کلب میں سنائی تھی اور پھر اس کی پاداش میں انہیں صوبہ بہ در ہونا پڑا تھا۔اپنی مشہور غزل"سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں" بھی فراز نے یہیں سنائی تھی۔جون ایلیا نے کہا تھا۔
کیا تکلف کریں یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے ہم اُس سے جلتے ہیں
احمد فراز کی بے پناہ مقبولیت سے جلنے والے ابھی تک اس اذیت سے نکلے کہ اتنی شہرت ایک ایسے شاعر کے حصے میں کیسے آگئی جو نہ تو کسی شاہ کا مصائب تھا نہ کسی دربار میں خلعت و دستار بانٹنے والا۔ملک بھر میں ادب کے نام پر جتنے بھی میلے ٹھیلے ہو رہے ہیں ۔ان میںاحمد فراز کا نام شجرِ ممنوعہ قرار پایا ہے۔کراچی کی عالمی اُردو کانفرنس ہو، آکسفرڈ کا لٹریچر فیسٹیول ہو، لاہور کی الحمراء آرٹس کونسل ہویا فیصل آباد کا ادبی میلہ ، کہیں بھی احمد فراز کو یاد نہیںکیا جاتا۔احمد فراز کی یاد کے دیے ان دلوں میں روشن ہیں جو محبت کرتے ہیں۔انقلاب کے خواب دیکھتے ہیںاورآمروں ، جابروں اور ظالموں کے نصاب سے انکار کرتے ہیں۔
میرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے

میرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے

میرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی
جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے

میرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی
جو اپنے چہرے پہ دوہرا نقاب رکھتا ہے

میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے

اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا، زبان تیر کی ہے

میں کٹ گروں یا سلامت رہوں، یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا

تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
میرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا


ٹیگز:

متعللقہ خبریں