عالمی ایجنڈا۔ 126

295612
عالمی ایجنڈا۔  126

دنیا اور عالم انسانیت دو سال سے عراق و شام دولت اسلامیہ جسے مختصراً داعش کہا جاتا سے جیسی خطرناک تنظیم کے مظالم سے دو چار ہے ۔ اس کی وحشیانہ سرگرمیوں سے ہر شخص بخوبی آگاہ ہے ۔ یہ تنظیم اپنے مخالفین کو کافر کہتی ہے اور کیمروں کے سامنے بے دردی سے ان کے سر قلم کرتی ہے ،مساجد اور دیگر عبادتگاہوں کو تباہ کرتی ہے، انٹیک دور کے نوادرات کو تباہ کرتے ہوئے معصوم انسانوں پر ایسے مظالم ڈھاتی ہے جنھیں سن کر انسانوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔اس تنظیم نے چند روز قبل شام میں یونیسکو کیطرف سے تاریخی ورثہ قرار دئیے جانے والے پالمیرا شہر پر قبضہ کرتے ہوئے سے تباہ و برباد کیا ہے ۔
داعش نے اپنی طرف سے اسلامی اقدار وضح کررکھی ہیں ۔ یہ تنظیم عالم اسلام اور عالم انسانیت کے لیے سخت خطرہ تشکیل دیتی ہے ۔ یہ تنظیم  نہ صرف مشرق وسطیٰ اور عالم اسلام بلکہ دور حاضر کا سنگین ترین مسئلہ ہے ۔
کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ داعش کیطرف سے پیرس واشنگٹن اور لندن پر حملوں،انسانوں کی انتہائی وحشیانہ طریقے سے ہلاکتوں اور پالمیراجیسے ثقافتی ورثے کی تباہی عالمی برادری کی دلچسپی کا معاملہ نہیں ہے اور داعش اور اس کے نظریات کی مشرق وسطیٰ پر حاکمیت سے صرف اسلامی ممالک اور دین اسلام ہی متاثر ہو گا ؟ کیا داعش کیطرف سے قتل عام انسانی حقوق کی پامالی روشن خیال اور تہذیبی اقدار کا دفاع کرنے والی تنظیموں اور ممالک کی دلچسپی کا معاملہ نہیں ہے ؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا برطانیہ، فرانس ،جرمنی، روس اور دیگر ممالک کے باشندوں کی داعش میں شرکت کے ذمہ دار یہ ممالک نہیں ہیں اور اس میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے ۔ان اور ان جیسے دیگر مسائل کے خاتمے کے لیے پوری دنیا کو داعش کیخلاف مشترکہ موقف اپنانے کی ضرورت ہے ۔
مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ۔۔
داعش سے متعلقہ بنیادی مسئلے کا تعلق مسلمان ممالک کے مستقبل کو کس طرح شکل دینے اور دنیا میں کس قسم کا کردار ادا کرنے سے ہے ۔ داعش کو اسلام سے وابستہ کرنے اور اس کی اپنی سرگرمیوں میں کامیابی کی صورت میں دنیا کا مستقبل کیا ہو گا ۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمان داعش جیسی سوچ نہیں رکھتے ہیں۔ داعش کے نظریات اور اسکی وحشیانہ کاروائیوں کا کسی بھی صورت میں اسلام سے تعلق ظاہر نہیں کیا جا سکتا لیکن جس طرح انسان کے جسم میں پائے جانے والے ایک وائرس کو اگر ختم نہ کیا جائے تو وہ پورے جسم میں پھیل جاتا ہے بالکل اسی طرح اگر داعش کو ختم نہ کیا گیا تو اس کے پورے عالم اسلام میں پھیل جانے کا خطرہ موجود ہے خاصکر علاقے اور دنیا کے سماجی اور اقتصادی مسائل کے شکار نوجوان داعش کو مسائل کو قلیل مدت میں حل کرنے کےایک متبادل کی نظر سے دیکھ سکتے ہیں ۔ داعش کیطرف سے شہروں پر قبضے کو اپنی کامیابی اور فتح قرار دینے کا پروپگنڈا مسائل سے دوچار نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کرنے میں موثر کردار ادا کرتا ہے ۔اگر اس صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو علاقے اور دنیا کے مسلمان غلط میڈیا اور چینلز کے گرداب میں پھنس سکتے ہیں ۔
1920 اور 1930 کی دھائی میں بھی انسانوں کو ایک ایسی ہی خطرناک تحریک کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ اس دور میں نیشلزم ، سوشلزم اور فاشزم نظریات کی روک تھام نہ کر سکنے کیوجہ سے اس تحریک نے جرمنی ،اٹلی اور پورے یورپ کو ایک وائرس کیطرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔نیشنل سوشلزم بھی داعش کیطرح اپنی آئیڈیالوجی کے علاوہ کسی دوسری آئیڈیالوجی کو قبول نہیں کرتا تھا ۔ ہٹلر نے نسل پرست اور وسعت پرست تحریک کے ذریعے یہودیوں سمیت کئی میلین انسانوں کو ہلاک کیا تھا۔ اٹلی میں موسولینی اور روس میں سٹالن نے اپنے نظریات کو قبول نہ کرنے والوں کو ہلاک کیا تھا ۔ جب یہ وائرس پھیل رہا تھا تو اسوقت سپر طاقتوں نے اپنے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے حرکت کی تھی اور آخر کار یہ وائرس دوسری جنگ عظیم شروع ہونے اور پوری دنیا کے لیے تباہی و بربادی کا سبب بنا ۔
اب داعش کی شکل میں ا سی جیسا ایک کھیل کھیلا جا رہا ہے اور سپر طاقتیں ،انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں داعش جیسے وائرس کو نظر انداز کر رہی ہیں ۔عراق اور شام کے درمیان بین الا قوامی حد کی داعش کیطرف سے کھلے عام پامالی کے باوجود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے
ا قوام متحدہ معاہدے کی شق نمبر دو کی ساتویں مد پر عمل درآمد نہیں کیا ہے ۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین دو سال سے جاری داعش کے حملوں کو نظر انداز کر رہے ہیں اور ستم یہ کہ علاقے کے ممالک بھی اس سنگین مسئلے کو نظر انداز کر رہے ہیں ۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ صدر اوباما نے داعش کیخلاف جدوجہد کے لیے جو حکمت عملی اپنائی ہے وہ بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو رہی ہے ۔
اس کی وجہ بہار عرب اور اس کے بعد علاقے میں سنیوں اور شعیوں کے درمیان شروع ہونے والی طاقت کی جنگ اور اس سے وابستہ توازن کے کھیل ہیں ۔ اگرچہ اس کھیل کے مرکزی کردار سعودی عرب اور ایران ہیں لیکن سپر طاقتیں بھی کار فرما ہیں ۔ امریکہ ،برطانیہ اور فرانس سعودی عرب کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ روس اور چین ایران کے طرفدار ہیں ۔
واضح الفاظ میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ممالک سرکاری طور پر اور براہ راست داعش اور اس کی کاروائیوں کی حمایت کر رہے ہیں لیکن جس طرح ہٹلر اور موسولینی کی فاشسٹ آئیڈیالوجی سے اس دور کے سپر طاقتیں سرکاری طور پر ذمہ دار نہیں تھیں اسی طرح اج بھی علاقائی اور عالمی طاقتوں نے داعش کو روکنے کی حد تک موثر تدابیر نہیں اپنائی ہیں جس کی وجہ سے وہ بلواستہ اس کی ذمہ دار ہیں ۔ داعش جیسا مہلک وائرس کچھ مدت میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے اور عالمی توازن کا کھیل پوری دنیا کے توازن کو تہس نہس کر سکتا ہے ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں