کوچۂ فن و ادب - 19

نوید ملک کا ’’ اک سفر اندھیرے میں ‘‘ دراصل تہذیب و تمدن کے بنتے بگڑتے انہی دائروں میں آپ اپنی تلاش ہے۔قلم اور کاپی کے ساتھ آب ِ گریہ جسے میسر ہو ، وہ کربلا کی مٹی میں سچ کے بوٹے اُگا کر ہی دم لیتا ہے

278161
کوچۂ فن و ادب - 19

ٹی ایس ایلیٹ نے اپنی مشہور زمانہ نظم ’’کھوکھلا آدمی‘‘ میں کہا تھا۔’’وہ لاشیں جو پچھلے برس تمہارے باغیچے میں دفنائی گئی تھیں۔کیا اس سال ان کے شگوفے نکل آئے ہیں‘‘۔مرگ ِ ناگہانی یہ سوال لوگوں کے ایک انبوہ سے کرتی ہے جو سرد رات میں ایک جگہ پر ٹھہرے ہوئے ہیں اور آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔یہ نظم 1925ء میں شائع ہوئی تھی۔جس میں مغربی تہذیب کی تباہ کاریوں کا ماتم کیا گیا تھا۔تہذیب و تمدن کیسے بنتے ہیں اور کیسے اجڑتے ہیں۔بنتے بگڑتے ہوئے یہ دائرے تاریخی وجدان رکھنے والے کسی تخلیق کار کی گرفت میں آجائیں تو تصویر مصوری بن جاتی ہے ۔تحریر افسانہ اور شاعری کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور تقریر میں پیغمبرانہ تاثیر پیدا ہو جاتی ہے ۔
نوید ملک کا ’’ اک سفر اندھیرے میں ‘‘ دراصل تہذیب و تمدن کے بنتے بگڑتے انہی دائروں میں آپ اپنی تلاش ہے۔قلم اور کاپی کے ساتھ آب ِ گریہ جسے میسر ہو ، وہ کربلا کی مٹی میں سچ کے بوٹے اُگا کر ہی دم لیتا ہے ۔نوید ملک کی چشم ِ حیراں نے مشقتوں کی دراڑوں سے ہجوم ِ شہر کو دیکھا ہے جہاں موت کی خوشبو ہجر کے دریا کے ساتھ سفر میں رہتی ہے ۔احساس کے پرندے اور یاد کے پنچھی رسم ِ دنیا کی حنا بندی کرتے ہیں اور نوید ملک کی جنبش ِ لب آرزو کے دیے جلاتی جاتی ہے ۔
جو جلتا رہتا تو اک دن مجھے جلادیتا
دیا اُمید کا اب کے بجھا ہے میرے لیے
جو اک کشش سی ہے دُنیا کے ان جھمیلوں میں
کسی کے دل میں ابھی تک جگہ ہے میرے لیے
بتا رہا ہے کہ اک دن سبھی نے مرنا ہے
شجر سے سوکھ کے پتہ گر ا ہے میرے لیے
نوید ملک کی شاعری رومانویت ،ترقی پسندی اور موجودہ عہد کے مظلوموں کے حوالے سے اپنے اندر بہت سے اشارے لیے ہوئے ہے ۔جو آگے چل کر ایک منفرد اور جداگانہ لب و لہجہ بھی اختیار کرسکتے ہیں ۔نوید ملک بنیادی طور پر امید پرست ،انسان کی خوشحالی اور جمہوری اقدار کے حامی شاعر ہیں۔سیاسی و سماجی شعور بھی ان کی فکری جہت نمائی کا ہم رکاب دکھائی دیتا ہے۔
یہ کیسی شام کی چڑیا ہے قید سینے میں
جو چُگ رہی ہے مجھے اور اُڑا نہیں پاتا
۔۔۔۔۔
تم ہو زندہ تو فقط اپنے لیے
میں نے جینا ہے زمانے کے لیے
میری منزل وہی کربل والی
گھر ہے آباد لُٹانے کے لیے
۔۔۔۔۔
میں اگر جاگا ہوا ہوں ، مجھ سے مل
سو رہا ہوں تو جگا اے زندگی
۔۔۔۔۔۔
مٹ گیا جب یزید نے سوچا
میری سادات پر حکومت ہو
۔۔۔۔۔
ربط ہے گہرا بہت ہم چار میں
میں ، قلم ، دل کی اُداسی ، شاعری
میں نے جتنے بھی مناظر پی لیے
ہو گئی اتنی ہی پیاسی شاعری

اداسی اور تنہائی کے مناظر نوید کی شاعری میں جا بہ جا دکھائی دیتے ہیں ۔ٹوٹتا ہی نہیں سلسلہ رات کا ۔انہیں لگتا ہے کہ زندگی تو جیسے ہے اک سفر اندھیرے میں ۔کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے ، دھڑکنیں ہیں اُداس سینے میں۔ لیکن ان کی رجائیت پسندی انہیں زیادہ دیر اُداس نہیں رہنے دیتی ۔ اور وہ ایک نئے ولولے اور لگن کے ساتھ گذربسر پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔
تیرا سایہ جو میسر ہوتا
سر پہ دستار تصور کرتے
۔۔۔۔
مسکراہٹ ، تری شرمیلی نظر اور حیا
کتنے زیور ہیں ترے پاس سجا خوب کرو

ایک اُمید کہ مجھے بھی یاد کرے گا وہ گھر سجاتے ہوئے۔ اور پھر یہ تیقن کہ آدمی ہی توہے آدمی کا سفر ۔نوید کی شاعری میںدبی آگ دکھائی بھی نہیں دیتی اور ہے کہیں ۔قیامت کا ایک شور بھی ہے جو سُنائی بھی نہیں دیتا اور ہے
کہیں ۔یہی تو ہے سیدھی ، سچی اور صاف شاعری کہ حالات کی نوحہ گری کہیں جسے۔
ایک صحرا ہے اور صحرا میں کہیں پانی نہیں
موت کی تحریک ہے جس کا کوئی بانی نہیں

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں