عالمی ایجنڈا۔ 123

271562
عالمی ایجنڈا۔ 123

شمالی قبرصی ترک جمہوریہ میں 19 اور 26 اپریل کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں سات امیدواروں نے حصہ لیا ۔انتخابات کے پہلے راؤنڈ میں سب سے زیادہ ووٹ درویش ایراولو اور مصطفیٰ عاکن جی نے حاصل کیے ۔ دوسرے راؤند میں مصطفیٰ عاکن جی 60٫5 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے شمالی قبرصی ترک جمہوریہ کے ساتویں صدر منتخب ہو گئے ۔ انتخابات کے نتائج اور بعد کی پیش رفت سے شمالی قبرصی ترک جمہوریہ اور قبرص میں ایک نئے دور کے آغاز کے اشارے ملتے ہیں ۔پہلا اشارہ مصطفیٰ عاکن جی کے سیاسی تجربات اور نظریات سے اور دوسرا اشارہ انتخابی عمل اور بعد میں ان کیطرف سے کیے جانے والے بیانات سے ملتا ہے ۔ ڈیموکریٹ پارٹی جس کی قیادت کئی برسوں سے مصطفیٰ عاکن جی کر رہے ہیں کے سیاسی نظریات روائتی شمالی قبرصی ترک جمہوریہ کی قیادت سے مختلف نظر آتے ہیں ۔
بلاشبہ شمالی قبرصی ترک جمہوریہ کے صدر مصطفیٰ عاکن جی کے اپنے نظریات اور منصوبے موجود ہیں اور ان کیطرف سے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا ایک ناقابل بحث جمہوری طریقہ کار ہے ۔ ان کا ملکی مسائل کے حل کے لیے کسی نئے طریقہ کار کو اپنانا انتہائی معقول اور قابل فہم ہے ۔ہر جمہوری ملک کیطرح شمالی قبرصی ترک جمہوریہ کے عوام بھی بھاری اکثریت سے جیتے والے عاکن جی سے وعدوں کو پورا کرنے اور ان کی کامیابی کے متمنی ہیں لیکن یہاں پر یہ سوال پوچھنا لازمی ہے کہ شمالی قبرصی ترک جمہوریہ کا بنیادی ہدف کیا ہے اور اس ہدف کو پانے کا طریقہ کار کیا ہے ؟
مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ۔۔۔
قبرص کے مسئلے کا ہدف واضح ہے لیکن اس ہدف کو پانے کا طریقہ کار مشکل ہے۔ ہدف قبرصی ترکوں کا جزیرے میں امن و امان کیساتھ خوشحال زندگی بسر کرنا ہے ۔1950 میں شروع ہونے والے اس عمل میں کردار ادا کرنے والے قبرصی ترک لیڈران اور ان کی حمایت کرنے والے ترکی اس سلسلے میں ہم فکر ہیں لیکن اس ہدف میں کامیابی حاصل کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں ۔ اگر 1950 سے شروع ہونے والے اس عمل کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ترکی اور شمالی قبرصی ترک جمہوریہ نےہدف کو پانے کے لیے دو قسم کے طریقہ کار کو اپنایا ہے ۔ 1960 میں ترکی ،یونان اور برطانیہ کی ضمانت کیساتھ قائم ہونے والی جمہوریہ قبرص میں ترک اور قبرصی یونانی مل جل کر زندگی بسر کر تے تھے لیکن 1963 میں قبرصی یونانی نے اس ماڈل کو ختم کرتے ہوئے پورے قبرص پر اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی ۔ 20 سال جیسے کھٹن دور کے بعد 1983 میں آزاد شمالی قبرصی ترک جمہوریہ کا قیام عمل میں آیا ۔ترکی کیطرف سے حمایت کیے جانے اس ماڈل کیساتھ شمالی قبرص میں ترکوں کی حکومت قائم ہو گئی اور وہ قبرصی یونانیوں سے مکمل طور پر علیحدہ ہو گئے ۔ شمالی قبرصی ترک جمہوریہ کے ماڈل کوقبرصی ترکوں کی سلامتی اور وقار کی بحالی کے حل کی نظر سے دیکھا گیا تھا ۔قبرصی ترکوں نے ترکی کی حمایت کیساتھ جزیرے میں امن اور سلامتی کے ساتھ زندگی بسر کرنی شروع کر دی تھی اور یہ صورتحال 32 سال سے جاری ہے ۔
اس حقیقت کو قبول کرنے کی ضرورت ہے کہ اس فارمولے سے شمالی قبرصی ترک جمہوریہ کو سفارتی سطح پر تسلیم کروانے ،دنیا کیساتھ تعلقات کو بڑھانے اور اقتصادی ترقی کرنے کے بارے میں جو توقعا ت تھیں وہ پوری نہیں ہو سکی ہیں ۔ترکوں کو تحفظ دینے کے ہدف کو پا لیا گیا تھا لیکن دیگر اہداف کو پانے میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی تھی ۔نصف صدی کیطرح آج بھی شمالی قبرصی ترک جمہوریہ کا وجود ترکی کی فوجی، سیاسی اور مالی امداد کیساتھ برقرار ہے۔
ان دونوں ماڈلوں کے مسائل کیوجہ سے قبرص کی دونوں حکومتیں، ترکی اور عالمی ایکٹرزمسئلہ قبرص کا پائیدار حل تلاش کرنے کے لیے کئی برسوں سے کوششوں میں مصروف ہیں ۔اس ضمن میں 2004 میں اقوام متحدہ نے جو عنان ماڈل پیش کیا تھا اسے تمام فریقوں کی حمایت حاصل تھی لیکن اس کے باوجود اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ قبرص کے منقسم ہونے کی ہر موقع پر شکایت کرنے والے قبرصی یونانیوں نے ریفرنڈم کے ذریعے جزیرے کو متحد کرنے والے عنان منصوبے کومسترد کر دیا تھا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے اس منفی موقف کے باوجود یورپی یونین نے اسے رکنیت دے دی ہے ۔
2004 سے ابتک منجمند اس فارمولے کی " دو قومی اور دو علاقائی فیڈرل قبرصی مملکت " کی شکل میں وضاحت کی جا سکتی ہے ۔یعنی قبرصی ترک اور قبرصی یونانی نہ ایک دوسرے میں پوری طرح مدغم اور نہ ہی ایک دوسرے سے مکمل طور پر جدا ہونگے ۔ وہ آزاد فیڈرل اداروں کی شکل میں زندگی بسر کریں گے۔ یہاں پر اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس فارمولے پر کس طرح کامیابی کیساتھ عمل درآمد کروایا جا سکتا ہے ۔
اس فارمولے کی تفصیلات کو ایک طرف رکھ دیں مگر اسوقت عاکن جی اور ان کے حامیوں کو تین اہم نکات کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ مسئلہ قبرص کو عنان منصوبے کی منظوری کے وقت عالمی سطح پر جو حمایت حاصل تھی وہ حمایت اب موجود نہیں ہے ۔اقوام متحدہ اور یورپی یونین سنگین مسائل کیوجہ سے مسئلہ قبرص کا منصفانہ اور حقیقت پسندانہ حل تلاش کرنے کی طاقت اور عزم کےمالک نہیں ہیں ۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ قبرصی یونانی انتظامیہ علاقے کے توانائی کے وسائل کو اپنے کنٹرول میں لینے کے لیے اسرائیل اور مصر کیساتھ تعاون کیے ہوئے ہے ۔اس تعاون کیوجہ سے نہ ترکی اور نہ ہی قبرصی ترکوں کے نظریات کو اہمیت دینے کا امکان موجود نہیں ہے ۔ان حالات کیوجہ سے مسئلہ قبرص کے حل کے فارمولے کو توانائی کے تعلقات اور روابط کومد نظر رکھے بغیر کامیاب نہیں بنایا جا سکتا ۔ایک دیگر پہلو یہ ہے کہ اسوقت پوری دنیا میں اسلام فوبیا کا مسئلہ موجود ہےقبرصی ترکوں کی یورپی یونین میں رکنیت کے حصول کا ہر پہلو کیساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ان وجوہات کیوجہ سے مسئلہ قبرص کا پائیدار حل تلاش کرنے کے لیے قبرصی ترکوں اور ترکی کے درمیان تعاون کو جاری رکھنے اور اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں ایک دوسرے کی راہ میں رکاوٹ بننے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں