کوچۂ فن و ادب - 18

نذیرلغاری صاحب بولتے ہیں تو ان کے ساتھ تاریخ بولتی ہے۔گندھارا اور موہنجودڑو میں جو نقشِ پا ملتے ہیں ، لغاری صاحب کے پائوں کے چھالوں سے ملتے جلتے ہیں۔چناب کی لہروں میں ڈولتے ملتان کے جتنے عکس ہیں لغاری صاحب کے ہم رقص ہیں

269300
کوچۂ فن و ادب - 18

نذیرلغاری سے تعلق ِ خاطر ایساہی ہے جیساکہ تاریخی تہذیبوں کے مابین ہو سکتا ہے۔ہم کب ، کیسے اور کیوں ملے ، نیچر اپنا راستہ خود بناتی ہے ۔جیسے کسی آبشارکاندی میں گرنا، ندی کا دریا تک جانا اور دریا کا سمندر کو گلے لگانا۔لغاری صاحب کا وجود میرے لیے کسی سمندر سے کم نہیں ۔میں بچپن میں سندھ دریا میں ڈوب گیا تھا۔اُبھرا تو اپنے آپ کو کراچی کے دشتِ بے اماں میں پایا ،جہاں انورسن رائے اورعذرا عباس کا گھر ایک نخلستان کی طرح تھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے لغاری صاحب اُن دنوں نوائے وقت میں تھے اور کبھی کبھار اسی نخلستان میں بیٹھ کر اُچ شریف کی اونچی کھجوروں کو یادکیا کرتے تھے۔

یہیں کہیں مجھ پر کشف ہوا کہ لغاری صاحب بولتے ہیں تو ان کے ساتھ تاریخ بولتی ہے۔گندھارا اور موہنجودڑو میں جو نقشِ پا ملتے ہیں ، لغاری صاحب کے پائوں کے چھالوں سے ملتے جلتے ہیں۔چناب کی لہروں میں ڈولتے ملتان کے جتنے عکس ہیں لغاری صاحب کے ہم رقص ہیں۔بھٹ شاہ سے ہنگلاج تک آواز کے جتنے فاصلے ہیں، لطیف سرکارکے پیچھے پیچھے لغاری صاحب نے بھی ناپے ہیں۔ٹھٹھہ کی شاہجہانی مسجد میں جب صبح کی اذان گونجتی ہے تو کینجھر اور ہالیجی کے سوئے ہوئے پنچھی لغاری صاحب کے ساتھ سفر آغاز کرتے ہیں۔جودنیا کی معلو م تاریخ کی پانچ ہزار برس قبل کی تہذیبوں کا سفر ہے۔
دریائے دجلہ اور دریائے فرات کے کنارے آباد تہذیبیں ہوں یا دریائے نیل کے پہلو میں مصرہو۔۔۔ لغاری صاحب کہیں نہ کہیں اہراموں سے ٹیک لگائے ، دریائوںسے مکالمہ کرتے ہوئے مل جائیں گے۔سندھ کی تہذیب تو گھر کی کھیتی ہے جس کے چپے چپے پر لغاری صاحب قشقہ کھینچے بیٹھے ہوئے ہیں۔
ہم نے شدید خواہش کے باوجود بہت کم سفر ایک ساتھ کیے لیکن لغاری صاحب کا اندازِ بیاں ایسا ہے کہ میں اپنے آپ کو اُسی کیفیت سے دوچار پاتا ہوں جو بچپن میںاپنی دادی ماں سے کہانی سنتے ہوئے محسوس کرتا تھا۔لغاری صاحب مصرگئے یا سعودی عرب ۔۔۔دریائے نیل پر کشتی کے سفر سے لے کر سعودی بادشاہ سے ملاقاتوں کے قصے، میں نے اُن کی زبانی سن رکھے ہیں۔لندن کی ایک محفل ِ مسرت میں ’’میں عشق پیالہ پی آیا۔۔پل بھر میں صدیاں جی آیا ‘‘ کی تال پر ناچتی اپسرا بھی میں نے لغاری صاحب کی آنکھوں سے دیکھی ہے۔شہید رانی بے نظیر بھٹو سے تو ہم کئی بار ایک ساتھ ملے تھے۔انہی ملاقاتوں میں ایک بار وہ فاطمہ بھٹو کےحوالے سے پوچھے گئے سوال پر آبدیدہ ہو گئی تھیں۔ہم نے بیگم نصرت بھٹو کے آنسو بھی ایک ساتھ دیکھے ہیں، جب وہ ستر کلفٹن میں پریس کانفرنس کے دروان رو پڑی تھیں۔مجھے یاد ہے میں مرتضیٰ بھٹو کی واپسی پر خوش نہیں تھا۔مجھے خدشہ تھا کہ مرتضیٰ کو قتل کر دیا جائے گا لیکن لغاری صاحب مجھے تسلیاں دیتے تھے کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔
ہو سکتا ہے لغاری صاحب مجھ سے متفق ہوں لیکن میری تسلی کے لیے اپنے خدشات کو ظاہر نہ کیا ہو۔ ایسا انہوں نے ہمیشہ کیا ہے، جب کبھی بھی میں اُداس ہوا ہوں،لغاری صاحب نے قہقہے بکھیر کر میرا غم غلط کرنے کی کوشش کی ہے۔جب کبھی بھی میرا دل رویا ہے ، لغاری صاحب کے مہربان ہاتھوں کی تھپکی کا احساس میرے ساتھ رہا ہے۔ہم میں اُستادی شاگردی کا کوئی رسمی رشتہ تو نہیں لیکن میں پوری دیانتداری کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ نثر لکھنے کی تھوڑی سی کوشش بھی اگر میرے حصے میں آئی ہے تو اس کا محرک صرف اور صرف لغاری صاحب کی تحریر ہے جس میں آبشاروں کے مترنم ماہیے، سُریلی ندیوں کے میٹھی کافیاں اور دریائوں کے اونچے سُر میں گائےہوئے دوہڑوں کے رنگ ایک ساتھ ملتے ہیں۔
آنسو تیری آنکھوں سے ہمارے نکل آئے
ہم عکس تری ذات کا ، منظر ترے ہم ہیں

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں