کوچۂ فن و ادب - 16

الیاس بابر اعوان بھی اسی خواب ِ دِگر کا مسافرہے۔سفر آغاز کرنے سے پہلے ہاتھوں میں خشک پھول، شانوں پہ برگ و بار،بالوں میں سمے کی ریت اور پیروں میں گردوغبارجیسے اسباب بہم ہونے سے یہ سفر ایک ایسی نامعلوم سُرنگ میں تبدیل ہو چکاہے جہاں بصارت سے زیادہ بصیرت کام آتی ہے اور تخلیق کی وجدانی شعاعیںاپنا راستہ خود بناتی چلی جاتی ہیں

250877
کوچۂ فن و ادب - 16

دیکھے ہوئے خوابوں کو پھر سے دیکھنا ، محبت کرنے والے ہر نوجوان کا مشترکہ دُکھ ہے لیکن اس دُکھ میں جب آئینوں اورچراغوں ، دریائوںاورسمندروں ، ساحلوں اور جزیروں ، زمینوں اور آسمانوں ، زمانوں اور لامکانوں کے استعارے بھی شامل ہو جائیں تو سمجھ لیں خواب دیکھنے والی آنکھیں محبت کے اگلے سفر پر روانہ ہو چکی ہیں۔الیاس بابر اعوان بھی اسی خواب ِ دِگر کا مسافرہے۔سفر آغاز کرنے سے پہلے ہاتھوں میں خشک پھول، شانوں پہ برگ و بار،بالوں میں سمے کی ریت اور پیروں میں گردوغبارجیسے اسباب بہم ہونے سے یہ سفر ایک ایسی نامعلوم سُرنگ میں تبدیل ہو چکاہے جہاں بصارت سے زیادہ بصیرت کام آتی ہے اور تخلیق کی وجدانی شعاعیںاپنا راستہ خود بناتی چلی جاتی ہیں ۔
جس طرح صوفی شعراء کے کلام میں دَرد کی مختلف کیفیتیں گل ہائے رنگ رنگ کی صورت میں جلوہ پذیر ہوتی ہیں اور جس طرح یہ دَرد ذاتی سے تجرباتی اور مشاہداتی سے کائناتی مظاہر میں انجمن آراء دکھائی دیتا ہے اسی طرح سفر کا استعارہ الیاس بابر اعوان کے اشعار میں محض محبوب کی گلیوں میں خرامِ رائیگاں تک محدود نہیں رہا، حاصل اور لاحاصل سے ماوراء شان ِ بے نیازی بن گیا ہے ۔اب یہ سفر صرف منزل کے حصول کا نام نہیں بلکہ ایک کارِ مسلسل ہے جسے انجام دینا ہی زندگی کا حسن ہے ۔الیاس بھی اسی حسنِ ازل گیر کا اسیر ہے ۔اسی لیے تو کہتا ہے ۔
رکاوٹیں بھی سفر کا جواز ہوتی ہیں
یہ راستہ کہیں ہموار ہو گیا تو پھر ؟
محبت کے لیے بس اِک سفر کافی نہیں ہے
تمہارے ساتھ رہنے کو زمانہ چاہیے تھا
میں ہوں تقسیم میں بچھڑے ہوئے لوگوں کی طرح
آج بھی مجھ کو رُلاتا ہے فسادات کا دُکھ
الیاس بابر اعوان کی پوری شاعری میںپیدا و پنہاں کوئی دُکھ ہے تو ہجر کا ہے ۔کوئی ملال ہے تو جدائی کا ہے ۔کوئی حسرت ہے تو وہی ہے جو گائوں سے شہر میں آنے والے بچے کی آنکھوں میں چمکتی ہے ۔اُس کا دل آج بھی اپنے گائوں کی اُسی چوپال میں بیٹھا ہے ۔جہاں بزمِ یاراں سجے کہ بزمِ حریفاں دُکھ سُکھ سب کے سانجھے ہیں۔تتلیاں آج بھی اُسے اپنی طرف بلاتی ہیں ۔جگنو ہیں کہ دل ودماغ میں ٹمٹمائے چلے جاتے ہیں ۔تپتی دوپہر وں میں دیواروں پر سجے ست برگے کے پھول اُسے ٹھنڈک کا احساس دلاتے ہیں اورگندم کی بالیوں سے وابستہ یادیں آج بھی اُسے اُن کھیتوں میں لے جاتی ہیں جہاں رزق اور عشق ایک ہی مٹی سے جنم لیتے ہیں۔
چار سُو رہتی ہے میرے گھر میں گندم کی مہک
گھر کی اک کھڑکی کھلی رکھتا ہوں گائوں کی طرف
گائوں ، گندم ،گھر اور کھڑکی ایسی علامتیں ہیں جو اپنے لغوی معنوں سے کہیں زیادہ معنی خیزاورکہیں زیادہ دلآویز بھی ہیں اور ایک ایسی دستاویز کی حیثیت بھی رکھتی ہیں جس میں نسل ِ انسانی کے ارتقائی مراحل پوری خوبصورتی کے ساتھ رقم ہیں۔الیاس بابر اعوان جب گائوں کی بات کرتا ہے توگویا ایک ایسی تہذیب کی بات کرتا ہے جس میں انسان ایک ہی خاندان کی طرح رہتے ہیں۔کھیتی باڑی میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ایک ہی چشمے کا پانی پیتے ہیں اور ایک دسترخوان پر کھانا کھاتے ہیں۔ایک ایسا دسترخوان جو گندم کی خوشبو سے مہکتا ہے ۔ایک ایسا گھر جس میں خوشیاں دھمالیں ڈالتی ہیں اور ایک ایسی کھڑکی جس نے زندگی کو تغیرو اجتہاد کے امکانات سے مالامال کر رکھا ہے۔الیاس بابر شہر سے نفرت نہیں کرتا لیکن یہ شہر جب اُس کی سانس چھین لیتا ہے ۔جب اُسے صحن میں بچپن کی یادوں کی جگہ گیراج دکھائی دیتا ہے۔تمام گلیاں ایک سی گلیاں اور تمام گھر ایک سے گھر نظر آتے ہیں۔جب اُسے اپنا در بھی ڈھونڈنے سے ملتا ہے تو وہ جو اپنے گائوں میں سینہ پھلا کے چلتا تھا ۔شہر کی گلیوں سے گزرتے ہوئے اُس کا دم گھٹنے لگتا ہے ۔تنہائی اور بے گانگی کا احساس کچھ اور بڑھنے لگتا ہے ۔ایسے میں وہ اپنے آپ سے بچھڑنے لگتا ہے۔
مجھ سے ہجرت تو ایک شخص نے کی
شہر کا شہر ہو گیا تنہا
گلاب سوکھ گئے ، انتظار ٹوٹ گیا
بس اِک گرہ کا تھا کھلنا کہ ہار ٹوٹ گیا


ٹیگز:

متعللقہ خبریں