عالمی ایجنڈا ۔ 120

237199
عالمی ایجنڈا ۔  120

عالم کیتھولک کے پاپائے روم فرانچیس نے آرمینیوں کے 1915 کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں کی مناسبت سے ویٹیکن سینٹ پیٹرس کلیسے میں خطاب کیا ۔انھوں نے کہا کہ 20 ویں صدی میں پہلی نسل کشی آرمینیوں کی گئی ہے ۔ان کا یہ دعویٰ انتہائی گھناونا اور غیر حقیقی ہے ۔پاپائے روم کے مقام اور تشخص کیوجہ سے بھی ان کا بیان انتہائی نامناسب ہے ۔روحانی اور مذہبی شخصیت ہونے کیوجہ سے ایک متنازع موضوع پر قطعی شکل میں بیان دینا مذہبی احترام کے منافی ہے ۔کیتھولک کلیسا اور پاپائے روم ایک ارب سے زائد عیسائیوں کے روحانی لیڈر ہیں ۔اس مقا م کیوجہ سے ان کے نظریات مذہبی اعتبار سے موثر ثابت ہو سکتے ہیں ۔
پاپائے روم نے متنازع آرمینی مسئلے کے بارے میں بیان دے کر اس بارے میں معلومات نہ رکھنے والے کیتھولک عیسائیوں کو غلط فہمی میں مبتلا کیا ہے جس سے انتہائی خطر ناک صورتحال پیدا ہو گئی ہے ۔انھوں نے اپنے ہم مذہبوں کو غلط معلومات فراہم کی ہیں اور مذہبوں کے مابین امن کے ماحول کو نقصان پہنچایا ہے ۔انھوں نے آرمینیوں کو کیتھولک مذہب سے قریب تر لانے اور عیسائیوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنےکی غرض سے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو اپنے مد مقابل لینے کا خطرہ مول لیا ہے ۔
پاپائے روم نے اس طرح کی حکمت عملی اپناتے ہوئے انتہائی مضحکہ خیز پالیسی اپنائی ہے ۔بعض ممالک ریل پولیٹیک مفادات کی خاطر مسئلہ آرمینیا کو نام نہاد نسل کشی کا جو رنگ دیا ہے پاپائے روم نے بھی ویسی ہی غلطی کی ہے ۔ اس صورتحال سے ایجنڈے میں موجود مذہبوں اور تہذیبوں کے درمیان جھڑپ کے بڑھ جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے ۔ 1915 کے واقعات سے متعلق انھوں نے جو بیان دیا ہے اس سے بذات خود پاپائے روم اور ویٹیکن کلیسے کیطرف سے کئی برسوں سے دفاع کردہ مذہبوں کے درمیان ڈائیلاگ کی پالیسی کو نقصان پہنچایا ہے ۔دنیا اور انسانیت کے لیے امن کا پیغام دینے والی عیسائی مذہب نے اپنی اس عظیم خوبی کوپامال کیا ہے ۔ان کا یہ بیان حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے امن و محبت کے پیغام کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا ۔
پاپائے روم کو مسئلہ آرمینیا جیسے تاریخی اور سیاسی معاملات میں مثبت اور غیر جانبدار موقف اپنانے اور اس مسئلے کو ہوا دینے کے بجائے اسے حل کرنے کی ضرورت تھی ۔
مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ
۔۔پاپائے روم کے بیان کا دوسرا غلط پہلوآرمینی دعوے کے موادسے ہے کیونکہ نام نہاد آرمینی نسل کشی کے دعوے تاریخی معاملے سے ہٹ کر سیاسی نوعیت اور مفروضوں پر مبنی ہیں ۔اس دعوے کا دستاویزات کیساتھ ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے ۔ یہ محض آرمینی لابی کا پروپگنڈا ہے کسی دعوے کو قبول کرنے کے لیے اس دعوے کے ہر کسی کیطرف سے بلا بحث ومباحثےقبول کردہ ٹھوس ثبوت اور دستاویزات پر مبنی ہونے کی ضرورت ہے ۔مغربی سائینسی فلسفےکا 500 سال سے چلا آنے والا پیغام یہ ہے کہ کسی دعوے کے صحیح ہونے کے لیے ٹھوس ثبوت فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔دراصل آرمینی نسل کشی کے دعوے پر صاحب بصیرت آرمینی بھی یقین نہیں رکھتے ہیں ۔1915 کے واقعات پہلی جنگ عظیم سے متعلق تمام دستاویزات اور ریکارڈ کھلا ہے اور کوئی بھی دستاویز آرمینیوں کے دعوے کو سچ نہیں رکھاتی ہے ۔بیرون ملک بسنے والے آرمینیوں کے ترکوں کیطرف سے آرمینیوں کی نسل کشی کے دعوے اور ان کی طرف سے پیش کی جانے والی دستاویزات غیر حقیقی اور کائناتی نوعیت کی نہیں ہیں ۔اگر ترک آرمینیوں کی نسل کشی کرتے تو کوئی بھی عقلمند اور باضمیر ترک سربراہ اور تاریخدان اسے مسترد نہ کرتے ۔اگر اس نسل کشی کے بارے میں ثبوت موجود ہوتے تو امریکہ ،یورپ اور پوری دنیا کے تاریخدان آرمینیوں کے دعوے کو قبول کر لیتے ۔ دراصل آرمینیوں کی نسل کشی نہیں کی گئی ہے ۔ دنیا میں نسل کشی کے دعوے کی حمایت کرنے والوں کیساتھ ساتھ اس کی مخالفت کرنے والے بے شمار تاریخدان اور ماہرین موجود ہیں ۔ اگر ترک آرمینیوں کی نسل کشی کرتے تو تاریخدان اس حقیقت سے کیسے انکار کر سکتے تھے ۔مثال کے طور پر ہٹلر کیطرف سے یہودیوں کی نسل کشی کے دعووں اور دستاویزات کو مسترد کرنے والا ایک شخص بھی موجود نہیں ہے ۔
بلاشبہ ہر کس 1915 میں جنگ کے دوران بے شمار انسانوں کی ہلاکت ،سلطنت عثمانیہ اور مسلمان شہریوں اور آرمینیوں کے درمیان بالمقابل ہلاکتیں وقوع پذیر ہوئی تھیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ جنگ کے دوران اور جنگی حالات کیوجہ سے عثمانی منتظمین اور آرمینیوں نے غلط فیصلے اور غلط کاروائیاں کی تھیں جسکی وجہ سے بے شمار آرمینی شہری، ترک ،کرد اور عرب مسلمان بھی ہلاک ہوئے تھے ۔
پاپائے روم کو نام نہاد آرمینی نسل کشی کے بارے میں بیان دیتے وقت ان حقائق کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اگر ایک مذہبی شخصیت انسانوں اور اقوام کے درمیان موجود مسائل کو غیر جانبداری کیساتھ حل نہیں کرتی ہے تو یہ مسائل مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں ۔
پاپائے روم ایک مذہبی لیڈر ہیں ۔ایک تاریخدان اور ماہر نہ ہونے کیوجہ سے انھوں نے 1915 کے واقعات سے متعلق تاریخی حقائق کا جائزہ نہیں لیا ہے ۔ترکی کے دورے کے دوران انھوں نے اس موضوع پر بیان دیتے ہو ئے کہا تھا کہ وہ اس مسئلے کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے ہیں ۔اگر پاپائے روم عیسائیوں کے درمیان اتحاد جیسے سیاسی منصوبے یا پھر ارمینیوں کے ایک سو سالہ پروپگنڈے کا عنصر بنے ہیں تو اس صورت میں انہیں ایک انتہائی گھٹیا پالیسی کا آلہ کار بنایا گیا ہے ۔ایسی صورت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی اس غلطی سے نہ صرف کلیسے کو نقصان پہنچایا گیا ہے بلکہ انھوں نے اپنے مذہب کی بھی خلاف ورزی کی ہے ۔انھوں نے حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی جہاں شمول تعلیمات کہ "آپ برائی کرنے والوں کیساتھ بھی اچھائی کریں " کی پامالی کی ہے ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں