پاکستانی سماج - 15

الیکٹرانک میڈیا یعنی ٹی وی و انٹر نیٹ اور موبائل فون اکیسویں صدی میں ہماری بنیادی ضروریات میں شامل ہو چکا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ کھانا کھائیں نہ کھائیں خبریں یا بریکنگ نیوز ضرور دیکھنی ہیں، بسا اوقات سلگتی بریکنگ نیوز تو واش روم کی ایمرجنسی تک کو بھلا دیتی

234298
پاکستانی سماج - 15

الیکٹرانک میڈیا یعنی ٹی وی و انٹر نیٹ اور موبائل فون اکیسویں صدی میں ہماری بنیادی ضروریات میں شامل ہو چکا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ کھانا کھائیں نہ کھائیں خبریں یا بریکنگ نیوز ضرور دیکھنی ہیں، بسا اوقات سلگتی بریکنگ نیوز تو واش روم کی ایمرجنسی تک کو بھلا دیتی ہے ۔ اہلخانہ ہوں یا دفتر کے فیلوز آپس میں بے لاگ تبصرے، محتاط تجزیوں کا نہ رُکنے والا سلسلہ معمول بن چکا ہے۔ بلکہ میں تو یوں کہوں گی کہ اب تو جس روز ایکسکلیوزو نیوز نہ ملے عوام الناس کی طبیعت میں بے چینی اور اضطراب کی سی کیفیت رہتی ہے گو یا کہ آج کوئی دھماکہ کیوں نہیں ہوا، حادثہ یا پھر کوئی بڑا واقعہ کیوں رونما نہیں ہوا۔ سنسنی خیز ی اور انکشافات نکوٹین اور کیفین کی طرح ہماری طلب بن چکے ہیں۔
بحیثیت مجموعی ہمارے اندرنشو نما پانے والے اُن پر تشدد رجحانات کے پیچھے کارفرما عوامل کی بھی میں یہاں نشاندہی کرنا ضروری سمجھتی ہوں ۔ اس کیلئے سادہ سی مثال سینما گھروں اور چھوٹی اسکرین پر دکھائی جانے والی فلموں کی ہے۔ آپ نے ضرور یہ محسوس کیا ہو گا کہ جس فلم یا ڈرامہ کا اسکرپٹ خوب مار دھاڑ ، توڑ پھوڑ پر مبنی ہو اور سائنس فکشن کے ذریعے اونچے پہاڑوں پر سے اور گہری کھائیوں میں گاڑیاں گرائی جائیں، ہیرو یا وِلن کو اذیتیں دی جائیں، خواتین پر تشدد ہو، اغوا ہو ، ریپ ہو وغیرہ وغیرہ اس فلم کی رینکنگ نہ صرف بیرونی دنیا میں بلکہ پاکستان میں بھی اوّلین پیمانے پر ہو گی۔ جو واضح طو رپر ہمارے مجموعی مزاج و کیفیات کی ایک جھلک ہے۔ یہ ہمارے اندر اُن تغیرات کی نشاندہی کر رہی ہوتی ہے کہ ہم کس راہ پر گامزن ہیں، ہماری ترجیحات کیا ہیں، نوجوان نسل کا مستقبل کیا ہو گا اور بالآخر منزل کیا؟؟؟
اس تناظر میں یہ نتیجہ اخذ کرنا کوئی مشکل نہیں کہ آئے روز گلی، محلے، خاندان اور ملکی سطح پرقتل و غارتگری، چوری، ڈکیتی، رہزنی ، بدمعاشی وغیرہ کیوں عام ہیں، گھریلو جھگڑے، جائیداد کے تنازعات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔ کتنا تکلیف کا لمحہ ہوتا ہے کہ جب ہم سنتے ہیں کہ فلاں کا بچہ ، شوہر یا بیٹا مارا گیا۔۔۔ عدم برداشت عام ہے چاہے وہ عبادتگاہوں کے منبر ہوں ، تعلیمی ادارے ہوں یا پھر عام سماج۔۔۔ ہر جانب ایک تشویش ناک صورتحال دکھائی دیتی ہے اور ہر پاکستانی کو بلاتفریق مذہب و سیاست درپیش ہے ۔ مسلمان یہ نہیں سوچتے کہ وہ جس مذہب کے پیروکار ہیں اُس کی تعلیمات میں تحمل، رواداری، امن اور سلامتی کا درس سرِ فہرست ہے جبکہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی اپنی روایتی مذہبی تعلیم سے کنارہ کش اور باغی دکھائی دیتے ہیں اس کی مثال حال ہی میں لاہور میں دو مسلم نوجوانوں کو زندہ جلانے کا انسانیت سوز واقعہ ہر زبان زدِ عام ہے۔
پاکستانی قوم تو طالبان کی جانب سے پُرتشدد اور دہشت گردانہ کارروائیوںکی آئے روز بھینٹ چڑھتی ہے۔ یہاں تک کہ ان تخریب کار عناصر کے ہاتھوں نہ صرف ہمارے سکیورٹی ادارے بلکہ ہمارے محافظوں کے بچے بھی محفوظ نہیں رہے۔ بجائے اس کے کہ ہم میز پر بات چیت کے ذریعے ان لوگوں سے مذاکرات کرتے اور ان کی ذہن سازی کر کے مجموعی قومی سطح پر کوششوں سے ان کی اصلاح کرتے ہم نے امریکہ کی پراکسی وار کا حصہ بن کر ان عناصر کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کا ہدف بن گئے۔ اور پھر اس وار کی وجہ سے میڈیا پر دن رات اسی حوالے سے راگ الاپے جاتے ہیں، بریکنگ نیوز چلائی جاتی ہیں اور پھر ان کی تخریبی کارروائیوں کو دکھایا جاتا ہے،لاشیں، انسانی اعضاءبچوں و خواتین کی چیخ و پکار ۔۔۔ اس دوران ٹی وی دیکھتے بچے بھی آبدیدہ ہو جاتے ہیں، گھروں میں مایوسی اور افسردگی چھا جاتی ہے۔ انسانی اذہان میں خوف سما جاتا ہے۔ ڈر ے اور سہمے ہوئے انسان۔۔۔ یہ کیا ہے؟ اس سے ہماری آئندہ نسل شدید متاثر ہو رہی ہے۔ میڈیا کی مجبوری ہے کہ وہ ایسے واقعات کو کور کرتی ہے تاکہ لوگوں میں دشمن اور دوست کی تمیز ہو مگر اس کے اثرات منفی ہی مرتب ہوتے ہیں۔
دوسری جانب بعض مذہبی جنونی نوجوان نسل کی تربیت اس طرح سے کر رہے ہیں کہ ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں وہ چونکہ اسلامی ہیں اور من پسند فرقوں کی پروموشن کے ساتھ ساتھ دوسرے مسالک و فرقوں پر پابندیوں، ان پر تشدد اور غیر مسلموں کو قتل کرنے کا درس دیتے نظر آتے ہیں حالانکہ اس قسم کی شریعت کا اسلام سے قطعاً کوئی تعلق سرے سے ہے ہی نہیں۔ کیونکہ دین اسلام میں رواداری، مساوات اور غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا درس ہے۔ مگر ایک عام شہری اس وجہ سے بھی ان کے جھانسے میں آجاتا ہے کہ اُس کی ذہنی پختگی اور بالیدگی اس نہج پر نہیں کہ وہ اچھے یا برے میں فیصلہ کر پائے ۔ اس کے علاوہ اپنی کم مائیگی کے باعث ایسے گروپس کا حصہ بن جاتا ہے ۔ اس وجہ سے بھی تشدد کو فروغ مل رہا ہے اور یہ رجحان زیادہ تر نوجوان نسل میں ہے۔ ہمیں ایسا لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا اور اسلام کی صحیح معنوں میں تشریح کے ساتھ ساتھ نبی کریم حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات کو درست معنوں میں عام کرنے کیلئے اقدامات بھی کرنے ہوں گے تاکہ ایسے گروپس کی حوصلہ شکنی کی جا سکے اور ان کے پسِ پردہ تخریبی عزائم کا بروقت تدارک ممکن ہو۔ ہمیں اس نسل کو یہ بتانا ہو گا کہ جتنے بھی اسلامی مسالک اور فرقے ہیں دراصل یہ اسلام کی عمارت کو مضبوط کرنے کے لئے بلاکس کی سی اہمیت کے حامل ہیں، فروعی اختلافات کوئی معنی نہیں رکھتے، حقیقی اور مستند جمہوری روایات کے تسلسل کیلئے ضروری ہے کہ ان بلاکس کو بلا تفریق اسلامی تعلیمات کو عام کرتے رہنا چاہئے۔ اسلام تو جبر کے خاتمے کا درس دیتا ہے۔
آج کی نسل کو ہمیں بتانا ہو گا کہ اسی ظلم اور تشدد کے خاتمے کیلئے ہی تو ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ دیگر مذاہب کے تسلسل کے طو رپر جہان فانی میں تشریف لائے اور آخری نبی کا معتبر مقام حاصل کیا، آپ کی تعلیمات میں انصاف سب کیلئے ہے، جنس یا حیثیت کی کسوٹی پرتفریق نہیں کی کہ کس کو کتنا دینا ہے، آپ نے صلح رحمی کا درس دیا، محبت کو فروغ دیا اور امن کا پیغام دیا۔اس عظیم انسانی درس کو عام کرنے سے آج کا پاکستانی معاشرہ تشدد کو ترک کر کے، تخریبی سوچ سے چھٹکارا پا کر، صلح رحمی کے راستے پر گامزن رہ کر امن کی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں