عالمی ایجنڈا۔118

232108
عالمی ایجنڈا۔118


25 مارچ 2015 کو مشرق وسطیٰ میں ایک اہم واقعہ پیش آیا ۔سعودی عرب کی مسلح افواج کے 100 طیاروں نے یمن کے دارالحکومت صنعا پر شدید بمباری شروع کی جو ابھی تک جاری ہے ۔سعودی عرب کیطرف سے شروع کردہ ان حملوں کی عالمی برادری نے بھی حمایت فراہم کی ہے ۔آٹھ عرب ممالک بحرین کویت قطر متحدہ عرب امارات مراکش سوڈان اردن اور مصر نے فوجی اور امریکہ ترکی پاکستان برطانیہ فرانس فلسطین لیبیا اور موریطانیہ نے سیاسی حمایت فراہم کرنے کا اعلان کیا ۔جبکہ روس ایران شام عراق اور الجزائر نے ان حملوں کی مخالفت کی ۔اگر ممالک کی اجتماعی حمایت پر ایک نظر ڈالی جائے تو اس کاروائی کی کئی ایک وجوہات سامنے آ جاتی ہیں ۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ یمن میں انتظامیہ کے فقدان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے متعدد علاقوں کا کنٹرول سنھبالنے والے حوثیوں کی پیش قدمی کو روکنا تھا ۔ اہل تشحیح زیدیوں سے منسلک حوثیوں نے سید صدرالدین حوثی کی زیر قیادت 2004 میں مخالف تحریک شروع کی تھی ۔جو 2011 میں دارالحکومت صنعا تک پھیل گئی ۔حوثیوں نے 2014 میں صدر منصور حادی کو جلاوطن کرتے ہوئے پارلیمنٹ پر قبضہ کر لیا ۔حوثیوں نے ایران کیساتھ تعلقات کو بڑھاتے ہوئے ان کی حمایت حاصل کر لی تھی ۔جس کے بعد سعودی عرب اور دیگر سنی ممالک حرکت میں آ گءے ۔ سعودی عرب نے کھلےالفاظ میں یہ واضح کیا کہ ان کی یہ فوجی کاروائی ھوثیوں کی حمایت کرنے والے ملک ایران کیخلاف ہے ۔اور ان کی حمایت کرنے والے ممالک نے بھی اس کی تصدیق کی ۔
مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ
سعودی عرب کی یمن کاروائی کا صرف اس پہلو کیساتھ جائزہ لینا ناکافی ہو گا کیونکہ اس کی تین اہم وجوہات پائی جاتی ہیں ۔ عالمی سطح پر فوجی کاروائی کی پہلی وجہ عالمی پٹرول کی سلامتی کو تحفظ میں لینا تھا ۔ کیونکہ حوثی آبنائے باب المندب پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اور عالمی پٹرول کے 30 فیصد حصے کی یہاں سےترسیل ہوتی تھی ۔ آبنائے باب المندب انیسویں اور بیسویں صدی کیطرح اب بھی اہم سٹریٹیجک مقام ہے ۔ایران کے زیر اثر حوثیوں کیطرف سے اس آبنا پر قبضہ کرنے کا یہ مطلب ہے کہ عالمی پٹرول کی ترسیل کا ایران کے ہاتھ میں جانا ہے ۔ یہ صورتحال کو نہ سب سے زیادہ پٹرول پیدا کرنے والا ملک سعودی عرب نہ خلیجی ممالک اور نہ ہی مغربی ممالک نظر انداز کر سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یمن کاروائی بعض بین الاقوامی قانونی مسائل کے باوجود عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے ۔
دوسری وجہ یمن فوجی کاروائی مشرق وسطیٰ کے علاقے میں استحکام اور مستقبل سے تعلق رکھنے والا ایک مسئلہ ہے ۔مشرق وسطیٰ میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد معرض وجود میں آنے والا ایک نظام موجود ہے ۔ بہار عرب سے اس حیثیت کو تبدیل کرنے کا عمل شروع ہوا لیکن یہ عمل پہلے لیبیا اور اس کے بعد شام میں عدم استحکام کا باعث بنا جو شاہی مملکتوں کے لیے بے چینی کا باعث بنا ۔ اس کی ایک وجہ ایران سے ہمدردی رکھنےوالے شعیہ گرپوں کو مزید فعال بنا دیا ۔تقریباً تمام ہی سنی ممالک میں شعیہ موجود ہیں ۔اگر حوثیوں کیطرح یہ گروپ بھی فعال بن گئے تاور انھوں نے بھی ایران کی حمایت حاصل کر لی تو پورے علاقے میں ریڈیکل طرز نطام میں تبدیلیاں ہو سکتی ہیں ۔ یمن کی فوجی کاروائی کو اس احتمال کو روکنے کے لیے ابتدائی قدم کہا جا سکتا ہے ۔
یمن فوجی کاروائی کچھ عرصے سے تشکیل پانے والے سنی بلاک کے فعال بننے کی مظہر ہے ۔مرحوم مشاہ عبداللہ کی وفات کے بعد تخت نشین ہونے والے شاہ سلمان نے کچھ عرصہ قبل علاقائی ممالک کیساتھ اہم اجلاس منعقد کیا اور سنی بلاک اعلامیہ جاری کیا ۔اس اعلامئیے کیمطابق خطرہ تشکیل دینے والے ایرانشعیہ اتحاد کیخلاف ایک سنی بلاک تشکیل دیا جائے گا ۔یمن کاروائی کو اس عمل کا ایک حصہ کہا جا سکتا ہے ۔یمن فوجی کاروائی کے بعد کی صورتحال سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بلاک نے ایک مسلح طاقت کی شکل اختیار کرنی شروع کر دی ہے ۔ عربلیگ کے رکن ممالک نے یمن کاروائی کے فوراً بعد مصر میں منعقدہ اجلاس میں عرب فوج قائم کرنے کا اعلان کیا ۔ جس سے مشرق وسطیٰ میں قطب پذیری کے اشارے ملتے ہیں ۔ایک طرف ایران کی زیر قیادت شعیہ ممالک اور عوام کا بلاک اور دوسری طرف سعودی عرب کی زیر قیادت سنی بلاک قائم ہو گیا ہے ۔اگرچہ یہ قطب پذیری توازن کے قیام اور وسعت پسندی کی روک تھام کے لحاظ سے فائدہ مند ہے لیکن اس کے سنگین خطرات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے ۔اگر حالات کنٹرول سے باہر ہو گئے تو دو قسم کے خطرات منظر عام پر آئِں گے ۔ پورے علاقے میں سنی شعیہ جھڑپیں شروع ہو جائیں گیاور ممالک میں عدم استحکام پیدا ہو جائے گا ۔ عراق شام لیبیا اور اب یمن میں جاری خانہ جنگی دیگر علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ۔دو بلاکوں کے درمیان ایک عظیم علاقائی جنگ شروع ہونے کا احتمال موجود ہے ۔اس جنگ کی تباہ کاریوں کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے ۔ پہلی جنگ عظیم کی صد سالہ یاد منائی جا رہی ہے اور اس جنگ سے ہمیں سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ پہلی جنگ عظیم کی بنیادی وجہ قطب پذیری ہے اور یہ ایک تصدیق شدہ حقیقت ہے ۔
نتیجے کے طور پر ان خطرات میں سے جو بھی سامنے آئیں یمن فوجی کاروائی اور بعد کی پیش رفت مشرق وسطیٰ کے ایک خطرناک گرداب میں ہونے کے اشارے دیتی ہے ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں