عالمی ایجنڈا۔116

272517
عالمی ایجنڈا۔116

پہلی جنگ عظیم جس کے بارے میں ہزاروں مقالے اور کتابیں لکھی جا چکی ہیں کا خلاصہ پیش کرنا انتہائی مشکل ہے لیکن جنگ کے بعد کے ایک سو سالہ دور کا جائزہ لینے سے اس جنگ کے انسانیت اور عالمی تاریخ کے لحاظ سے بعض پہلوں کو سامنے لایا جا سکتا ہے ۔ اس جنگ میں سپر طاقتیں فرانس ،برطانیہ، روس اور امریکہ ایک طرف اور اتحادی قوتیں جرمنی ،آسٹریا ،ہنگری ،بلغاریہ اور سلطنت عثمانیہ دوسری طرف تھیں ۔ اس جنگ میں سپر طاقتوں کو کامیابی حاصل ہو ئی تھی ۔اگر چہ پہلی جنگ عظیم نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا لیکن اس کے براہ راست اثرات محارب ممالک پر مرتب ہوئے تھے ۔ فاتح ممالک نے جنگ کے بعد دنیا میں ایک نیا سسٹم قائم کر تے ہوئےمغلوب ممالک پر کاری ضرب لگائی ۔ پہلی جنگ عظیم جنگ کی گہرائی تک جانا مشکل ہے لیکن اس جنگ کے تین اہم پہلوکھل کر سامنے آئے ہیں ۔
پہلی جنگ عظیم کلاسیک سامراجی پالیسیوں کے نقطہ عروج کا دور تھا ۔19 ویں صدی میں طاقتور بننے والے یورپی ممالک دنیا کے ایک بڑے حصے کو سامراجی سسٹم میں شامل کرنے کے بعد20 ویں صدی میں ایک دوسرے کیساتھ جنگ کرنے کی حد پر پہنچ گئےلیکن یہ جنگ صرف سامراجی طاقتوں تک محدود نہیں رہی ۔اس نے جوار کے ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔سلطنت عثمانیہ بھی ان میں شامل تھی ۔
جنگ نے کلاسیک شاہی دور کا خاتمہ کرتے ہوئے اس کی جگہ 17 ویں صدی کے قومی ریاستی ماڈل کو فروغ دیا۔اس عمل سے سب سے زیادہ سلطنت عثمانیہ ،ہنگری اور آسٹریا کی سلطنتیں متاثر ہوئیں ۔خاصکر سلطنت عثمانیہ کے زیر کنٹرول علاقوں اور عوام کو فاتح ممالک کے سامراجی مفادات کے مطابق شکل دی گئی ۔اس کی واضح مثال مشرق وسطی کے علاقے میں ممالک کے قیام سے ملتی ہے ۔میزو پوٹامیہ سے شمالی افریقہ تک اور وسطی ایشیا سے بلقان تک پھیلے ہوئے علاقے کی جیو پولیٹک تشکیل پہلی جنگ عظیم کا نتیجہ ہے ۔
یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سامراجی طاقتیں پوری طرح کامیاب رہی ہیں کیونکہ انھوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران اور اس کے خاتمے کے بعد جو منصوبے بنائے تھے ان پر عمل درآمد نہ کروا سکیں ۔مثلاً سامراجی طاقتوں نے تر کی کی سرزمین پر آرمینی، کردی اور یونانی مملکتیں قائم کرنے کے جو منصوبے بنائے تھے وہ پورے نہ ہو سکے ۔ ترک عوام نے سامراجی طاقتوں کیخلاف بھر پور جدو جہد کی تھی ۔مصطفی کمال اتاترکی کی زیر قیادت ترکوں نے نہ صرف جنگ نجات میں عظیم کامیابی حاصل کی اور دشمن کو اپنے وطن عزیر سے باہر نکالا بلکہ سفارتی اور فوجی طریقہ کار سے ترکی کی سرزمین پر آرمینی کردی اور یونانی مملکتوں کے قیام کے منصوبوں کو ناکارہ بنایا اور سب سے اہم بات یہ کہ جمہوریہ ترکی کو قائم کیا ۔اس دوران دنیا کی تاریخ کو بدلنے والی 1915 کی جنگ چناقلعے کی اہمیت کو فراموش نہیں کیا جانا چاہئیے۔
مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ۔۔۔
ہمیں پہلی جنگ عظیم سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔خاصکر عراق، شام ،فلسطین اور مشرق وسطی کے علاقے میں 20 ویں صدی میں پیش آنے والے واقعات سے سبق آموز ہیں ۔ جنگ کے بد ترین نتائج کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ شام اور عراق میں داعش کی
پر تشدد کاروائیوں سے جنگ کے بعد سامراجی طاقتوں کیطرف سے تعین کردہ حدود کے کسقدر مصنوعی اور مسائل سے بھرپور ہونے کی حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے ۔ موجودہ دور میں پیش آنے والے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم ختم نہیں ہوئی تھی اب وہ دوبار سامنے آ گئی ہے ۔ موجودہ صورتحال کو صد سالہ علاقائی جنگ کی متضاد شکل میں عکاسی کی نظر سے دیکھا جا سکتا ہے لیکن علاقے کے حالات و شرائط ایک سو سال پہلے کے مقابلے میں کافی مختلف ہیں ۔حالیہ جنگوں میں بیرونی سامراجی طاقتوں کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کے طاقتور ایکٹر بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔اس صورتحال کو مثبت پیش رفت کہا جا سکتا ہے کیونکہ علاقے کی تقدیر کو بدلنے میں علاقائی ممالک نے بھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے ۔طاقتور علاقائی ممالک علاقے کی سیاست میں رہبرانہ کردار ادا کر رہے ہیں لیکن اس صورتحال کے منفی پہلو بھی موجود ہیں ۔ یہ چپقلش ممالک کے درمیان نسلی فسادات کا سبب بن سکتی ہے ۔ داعش اور حزب اللہ جیسی تنظیموں کی شام میں جھڑپیں ایک بڑے دھماکے کے اشارے دیتی ہیں ۔ یہ جھڑپیں علاقائی مفاد کے لیے سخت نقصان دہ ہیں ۔اگر 25 سالہ ایران عراق جنگ دس سالہ شام کی خانہ جنگی اور ایک سو سالہ مسئلہ فلسطین کو سامنے رکھا جائے تو علاقے کی خطر ناک اور درد ناک صورتحال آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے ۔
بعض ماہرین نے پہلی جنگ عظیم کو مشہور مشرقی مسئلے اور تمام جنگوں کو ختم کرنے والی ایک جنگ کی نظر سے دیکھا ہے ۔لیکن اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے نظریات درست نہیں تھے کیونکہ نہ مشرقی مسئلے کو حل کیا جا سکا ہے اور نہ ہی جنگوں کو ختم کیا جا سکا ہے ۔ 20 ویں صدی میں دوسری جنگ عظیم کے علاوہ دنیا میں سینکڑوں جنگیں ہوئی ہیں ۔
پہلی جنگ عظیم کے نتائج اور جنگوں کی ہزار ہا سالہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگوں سے کسی بھی مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا ۔جنگ کے موضوع پر " اون وار " کتاب لکھنے والے کارل وان کلاوز وٹز کے دعوی کیمطابق جنگیں سیاست کی لوازمات ہیں یعنی مسائل کو سیاست اور سیاستدان ہی حل کر سکتے ہیں ۔ طاقتور ممالک محارب ممالک کو اسلحہ فروخت کر کے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں لیکن غریب ممالک کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور وہ مزید غربت کی چکی میں پستے ہیں ۔غریب ممالک جنگ میں شامل ہو کر اپنے وطن کے نام پر جوا کھیلتے ہیں اور ہار جاتے ہیں ۔ تاریخ میں اس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں