فتح چناق قلعے کی صد سالہ یاد

سن 1915 کے 18 مارچ کے روز ترک فوجیوں نے دشمن فوجوں کو شدید قسم کی شکست دیتے ہوئے اپنے وطن کو قبضے سے بچا لیا تھا

271254
فتح چناق قلعے کی صد سالہ یاد

پھولوں سے مہکے سبزہ زاروں ، شفا بخش پانیوں اور زر خیز مٹی سے مالا مال شہر چناق قلعے اور اس کی تحصیل گیلی بولو:
ترکی کے شمال مغربی داہنے پر جہاں سے نیلا گہرا سمندر ہو کر گزرتا ہے وہ شہر چناق قلعے بحری ایجین اور بحرہ مرمراکے سنگم پر قدرتی اسٹریٹیجک راہداری کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس اسٹریٹیجک اہمیت کی بدولت اس علاقے میں ت ہزاروں سال تک تاریخ کی خون ریز جنگیں لڑی جاتی رہی ہیں۔ جنگوں کے باوجود یہ شہر اپنے پاوں پر کھڑا رہنے میں کامیاب رہا ہے۔ یہ ترک قوم کانئے سرے سے جنم لینے والا مقام ہے۔ سن 1915 میں فتحِ چناق قلعے نے ترک قوم کو قوم ہونے کا شعور دیا۔ یہ جنگ ترک قوم کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔یہیں سے جمہوریہ ترکی نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔
آئیے آپ کو ایک سو سال قبل لیے چلتے ہیں۔ یہ 18 مارچ 1915 ہے۔ موسم بڑا خوبصورت براق تھا۔ آسمان صاف اور سمندر بڑا خاموش تھا۔ بہار کی آمد آمد تھی،درختوں کی کونپلیں نکل رہی تھیں ، نوجوان ترک فوجیوں نے صاف ستھرا لباس زیب تن کیا ۔ مہمت جک کے نام سے مشہور ترک فوجیوں نے غسل کے بعد وضو کیا۔ان کے لبوں سے دعائیں نکل رہی تھیں اور ان کے دل وطن کی محبت سے لبریز تھے ۔دیکھنے والے یہ سمجھ سکتے تھے کہ وہ نماز عید کے لیے جا رہے ہیں کیونکہ ترک عید کے دن اجتماعی طور پر نماز ادا کرتے ہیں ۔وہ بڑے خوش تھے جیسے کہ وہ عید کی نماز ادا کرنے جا رہے ہوں حالانکہ وہ شہید ہونے کی تیاریاں کر رہے تھے ۔وطن کی خاطر شہید ہونے اور شہادت کا رتبہ پانے کیوجہ سے وہ بے حد خوش تھے ۔
محاذ جنگ پر جانے والے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے انتہائی ذہین، عقلمند اور نیک دل نوجوان تھے ۔ان میں گندم پیدا کرنے والے کسان ، بانسری تیار کرنے والے چرواہے ،
گھر وں ،اصطبلوں اور پلوں کو تیار کرنے والے مستری ،لوہار ،زین سینے والے درزی اور بچوں کے ہاتھ میں قلم پکڑانے والے استاد شامل تھے ۔
ایک سو برس قبل سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے لیے ترک آبناؤں اور استنبول پر قبضہ جمانا قدیم دور سے مغربی طاقتوں کا ایک خواب تھا۔ جیسا کہ ترک شاعر اور مفکر مہمت عاکف انان نے کہا تھا کہ طویل عرصے سے "مغرب ہماری پشت پر کسی خونی چاقو " کی طرح ہے۔
برطانیہ اور روس نے فرانس کے ہمراہ عالمی جنگ کی افراتفری سے استفادہ کرتے ہوئے " بیمار آدمی" کے نام سے پکارے جانے والی سلطنت ِ عثمانیہ کا شیرازہ بکھیرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے آبنائے استنبول پار کرتے ہوئے استنبول پہنچنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔

تا ہم یہ خواب ترک جیالے فوجیوں کے سینہ سپر ہونے سے ملیا میٹ ہو گیا۔ جزیرہ نما گیلی بولو آج ، 18 مارچ 1915 کی بحری جنگ میں فتح اور 25 اپریل سے شروع ہوتے ہوئے ساڑھے 8 ماہ تک جاری رہنے والی اور دشمن کے آخر کار خاموشی سے دم دباتے ہوئے الٹے پاؤں بھاگنے پر مجبور ہونے والی بری جنگ کے گہرے اثرات کو اپنے اندر پوشیدہ کیے ہوئے ہے۔
نڈر اور بہادر ترک فوجیوں کی گھمسان کی لڑائی لڑتے ہوئے حاصل کردہ فتوحات ، جمہوریہ ترکی کے پیش لفظ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ چناق قلعے صفحہ ہستی سے نام و نشان مٹائے جانے کی کوشش کے خلاف ایک قوم کی اپنے وجود کو جاری رکھنے کی ایک جنگ ہے۔ یہ سر زمین ایک قوم کی پہچان ہے۔
چناق قلعے کئی محاذوں پر مشتمل ایک عظیم جنگ تھی۔ برطانیہ نے 18 مارچ کے روز شروع ہونے والی بحری جنگ میں منہ کی کھانے کے باوجود اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا۔ اس نے فرانس، آسڑیلیا اور نیو زی لینڈ کے ہمراہ 25 اپریل کو خشکی پر اپنے فوجیوں کو بھیجتے ہوئے کئی اطراف سے دھاوا بول دیا۔ ان کے پاس اس دور کا جدید ترین اسلحہ تھا۔ لیکن دوسری جانب ترک فوجیوں کے پاس محدود تعداد میں اسلحہ تھا لیکن ان کے حوصلے اور ایمان پختہ تھا۔ انزک فوجی الیک مارٹن نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ " ہم مشین گنوں کے ساتھ تابڑ توڑ حملے کر رہے تھے" مٹی کے چپے چپے نے اپنا دفاع کرنے کی جنگ کی۔
چناق قلعے کی مٹی میں ایک سال تک جنگ و جدل، بارود اور خون ملتا رہا ۔ ترک فوجیوں نے کسی شیر ک مانند اپنی مادر وطن کا دفاع کرنے کی خاطر دشمنوں کے عزائم کو خاک میں ملا تے ہوئے دنیا کی بہترین فوج کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔
چناق قلعے مادر وطن کی دھڑکنوں میں بسا ہوا تھا ۔ جزیرہ نما گیلی بولو کے قومی پارک میں توپ کے گولوں ، اور دیگر جنگی سازو سامان کے علاوہ ترک شہدا کی قبریں اور آسٹریلوی ، نیوزی لینڈر ،برطانوی اور فرانسیسی فوجیوں کی قبریں اور یادگاریں بھی موجود ہیں۔
باور رہے کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے فوجیوں کو مشترکہ طور پر ترکی میں انزاک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
چناق قلعے کا جنگی محاذ اس و قت امن و سلامتی کا پیامبر ہے ۔ وطن کے دفاع میں جام شہادت نوش کرنے والے ترک فوجیوں کی اولادیں اپنے اجداد کے ان کارناموں پر فخر سے سینہ تانے امن کی علامت اس سر زمین پر آزادی کا سانس لینے کی خوشی منا رہی ہے۔ یہ چناق قلعے کی تاریخ کا آخری معرکہ تھا کہ جس میں دو دشمن ایک دوسرے کے انتہائی قریب آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایک دوسرے سے نبرد آزما رہے ۔ کیا عجیب اتفاق ہے کہ ترک فوج کے لوک گیتوں پر مل کر یہی دشمن آنسو بہاتے رہے اور جب جنگ کا وقت آیا تو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے اور قسمت کا کرنا دیکھیے کہ اب ایک ہی جگہ منوں مٹی تلے دفن ہیں ۔

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں