کوچۂ فن و ادب - 10

ذیشان ساحل، کراچی کے ساحلوں سے دور کسی گمنام جزیرے میں چلا گیا ہے۔جہاں چاروں طرف پھیلا ہواایک جنگل ہو سکتا ہے اور پت جھڑ کا کبھی نہ ختم ہونے والا موسم۔پتوں کے گرنے کے لیے جہاں کوئی خاص دھن مقرر نہیں۔ہوا چلنے پر درخت ایک دوسرے سے باتیں نہیں کر سکتے

262325
کوچۂ فن و ادب - 10

ذیشان ساحل، کراچی کے ساحلوں سے دور کسی گمنام جزیرے میں چلا گیا ہے۔جہاں چاروں طرف پھیلا ہواایک جنگل ہو سکتا ہے اور پت جھڑ کا کبھی نہ ختم ہونے والا موسم۔پتوں کے گرنے کے لیے جہاں کوئی خاص دھن مقرر نہیں۔ہوا چلنے پر درخت ایک دوسرے سے باتیں نہیں کر سکتے۔جہاں تیز آواز والے پرندے اور گہری رنگت والے پھول بہت کم ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ اس نے ایک ہی موسم کاسفر اختیار کرنے سے پہلے ہمیں کچھ نہیں بتایا اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اب وہ موسموں کی رنگا رنگی کی طرف لوٹ کرنہیں آئے گا۔وہ آسماں سے محبت کرتا تھا۔بادلوں میں چھپنے کی کوشش کرتا تھا۔سمندر اسے اپنے سینے میں ٹھاٹھیں مارتا ہوا محسوس ہوتا تھا ، ہوا سے باتیں کرنا اسے اچھا لگتا تھا۔خواب اس کی آنکھوں میں گھر بنا چکے تھے۔ہر روز وہ اپنے ادھورے خوابوں سے باہر نکلنے پر، اخبار اور چائے کی پیالی ملنے کے بعد شروع ہونے والے دن کے بارے میں سوچتا تھا۔
کل شام تک شہر میں کتنے لوگ مارے گئے؟
وہ انہیں نہیں جانتا تھا
وہ ڈاکٹر ، ہاکی کا کھلاڑی، سیاسی کارکن، دودھ والا
اور پتہ نہیں کون کون؟
وہ بخارا کا عزت بیگ نہیں تھا ،جو گجرات پہنچ کر سوہنی کے عشق میں مہنیوال بن گیا ۔وہ گھوٹکی کی شہزادی مومل کے طلسماتی محل کو سر کرنے والا راموبھی نہیں تھا ۔وہ توننھی ننھی خواہشیں رکھنے اور چھوٹے چھوٹے خواب دیکھنے والاایک عام آدمی تھا، جوہمیشہ کیے جانے والے وعدوں کے بارے میں سوچتا ہے اور ان کے پورا نہ ہونے کے خیال سے خود ہی سہم جاتا ہے۔وہ زیادہ تفصیل میں نہیں جاتا،اپنی توجہ شہر کے حالات سے کسی اور طرف ہٹانے کے لیے ، وہ ٹی وی کھولتا ہے۔لیکن وہا ں بھی اسے شہر جلتا ہی دکھائی دیتا ہے۔ سوختہ لاشوں کی بُو ٹی وی اسکرین سے باہرنکلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے پرکرگسوں کی طرح جھپٹ رہے ہوتے ہیں۔جوتے ، لاتیں ، گھونسے چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔سڑکوں پر جلتے ہوئے ٹائر اور گاڑیاں دل ودماغ کی گھٹن میں کچھ اور اضافہ کرتی ہیں۔وہ باہر دیکھتا ہے ۔شہر کو جانے والا راستہ ویران پڑا ہے۔نہر والے پُل پر سناٹا ہے ۔اچانک کہیں سے فائرنگ کی آواز آنے لگتی ہے۔اور وہ اپنی دنیا میں لوٹ آتا ہے۔اپنے ادھورے خوابوں کو پھر سے جوڑنے لگتا ہے۔پہلے وہ ٹی وی کھولتا تھا تو دیکھتا تھا کہ اسکرین پر اسرائیلی پولیس فلسطینی عورتوں کو سڑکوں پر گھسیٹتی ہوئی لے جا رہی ہے۔بغداد کی گلیوں میں لاشیں بکھری ہیں۔وہ یہ بھی دیکھتا تھا کہ سرائیوو کے شہری بکتربند گاڑیوں کی مدد سے سڑک پار کرتے ہیں۔اور سوچتا تھا کہ میں ان سے زیادہ خوش قسمت ہوں۔لیکن اب قسمت کا کھیل بدل گیا ہے۔ ہاتھوں کی لکیروں میں قسمت تلاش کرنے والوں کو کیا معلوم کہ قسمت تو ان کی بھی ہوتی ہے جن کے ہاتھ نہیں ہوتے۔ذیشان ساحل بھی معذوری اور علالت کے باعث اپنے پائوں پر نہیں چل سکتا تھا۔لیکن اس کی اڑان بہت اونچی تھی۔وہ پرندوں کے ساتھ نیل گگن کی وسعتوں میںچھوٹی بڑی، آڑی ترچھی اڑانیں بھرتا ۔کہکشائوں میں اپنے قدموں کے نشان دیکھتا ۔اور بے جان چیزوں پر نظمیں لکھتا تھا۔وہ نثری نظم کا آخری شاعر تھا،جس کے لفظوں میں ترتیب بھی تھی اور تہذیب بھی۔
ذیشان ،بے نظیر بھٹو کی شہادت پر بہت اداس تھا۔شہید بی بی کے حوالے سے اس نے تین نظمیں ایک ساتھ لکھیں۔ایک دن مجھے فون کیا۔حسب معمول دعائیں دیں۔اور کہنے لگا ۔نظمیں تمہیں بھیج رہا ہوں۔اچھی لگیں تو شایع کر دینا۔نہیں تو اپنے پاس رکھ لینا۔میں نے تینوں نظمیں ’’بے نظیر شاعری‘‘ کے عنوان سے اگلے دن چھاپ دیں۔بہت خوش ہوا۔کہنے لگا ، ایسا کچھ اور بھی لکھا تو تمہیں بھیجوں گا۔کون جانتا تھا کہ بی بی پر لکھی گئی نظمیں ہی اس کی آخری نظمیں بن جائیں گی۔لیکن بلاول کے بارے میںجو کچھ وہ کہہ گیا ہے۔وہ اس دیس کے ہر بلاول کا نصیب بھی ہے اور نصب العین بھی۔
بلاول !آج تم کو دیکھ کر کھونے لگا یہ دل
ہمیشہ مسکراتا تھا، مگر رونے لگا یہ دل
نہ جانے کیوں بہت مجبور سا ہونے لگا یہ دل
نئے اک خواب میں بے وجہ گم ہونے لگا یہ دل
بلاول! دل سے نکلی سب دعائیں سامنے رکھنا
محبت سامنے رکھنا ، وفائیں سامنے رکھنا
تمہاری ماں کی ساری اجرکیں قومی اثاثہ ہیں
تم ان کے سر سے وابستہ ردائیں سامنے رکھنا
ذیشان ساحل کی دعائیں ردائیں بن کر بلاول کے ساتھ رہیں گی ۔سوچتے سوچتے اس کا دن گزر گیا ہے۔ دیکھتے دیکھتے رات ہو گئی ہے۔ اور زندگی اپنے رستے پہ کہیں کھو گئی ہے لیکن اس کی شاعری ابھی سوئی نہیں ، جاگ رہی ہے۔ خاص طور پر اس کی یہ نظم آنے والی نسلوں کو ہمیشہ یاد دلاتی رہے گی کہ بے نظیر کیسی تھی۔
وقت کے گزرنے پر، وہ جو بھول جائیں گے، بے نظیر کیسی تھی
ہم انہیں بتائیں گے ، زندگی کے ماتھے پر ، اک لکیر جیسی تھی
روزوشب کے زنداں میں ، اک اسیر جیسی تھی
شہر کے غریبوں کو اک امیر جیسی تھی
جبر کی نگاہوں میں، ایک تیر جیسی تھی
بے نظیر بھٹوبس بے نظیر جیسی تھی

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں