رانا بھگوان داس کی یاد میں

رانا بھگوان داس۔۔۔ ایک روشن خیال و ایماندار شخصیت ، پاکستان کا عظیم فرزند جو پچھلے ہفتے اس دنیا سے چل بسے ۔۔۔پرودرگار ان کی مکتی کریں ، تتھااستو(آمین) ۔ رانا صاحب 2000 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج مقرر ہوئے ، مگر اُن کی شہرت میں اضافہ تب ہوا جب 2007میں چیف جسٹس افتخار چوہدری (سابق) کو جنرل پرویز مشرف نے معزول کردیا تھا

245655
رانا بھگوان داس کی یاد میں

رانا بھگوان داس کی یاد میں
تحریر: وجیش پرتاب دھنجا
قلم : روشن آگاہی
میرے لیے یہ تحریر لکھنا بہت مشکل بھی اور نہایت اہم بھی، پاکستان کی اقلیت (غیرمسلم) ہونے کے ناطے اپنی ہندؤ برادری کے نامور شخصیت کو خراج تحسین پیش کروں۔ رانا بھگوان داس۔۔۔ ایک روشن خیال و ایماندار شخصیت ، پاکستان کا عظیم فرزند جو پچھلے ہفتے اس دنیا سے چل بسے ۔۔۔پرودرگار ان کی مکتی کریں ، تتھااستو(آمین) ۔ رانا صاحب 2000 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج مقرر ہوئے ، مگر اُن کی شہرت میں اضافہ تب ہوا جب 2007میں چیف جسٹس افتخار چوہدری (سابق) کو جنرل پرویز مشرف نے معزول کردیا تھا۔ جب رانا بھگوان داس صاحب کانام بطور چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کے لیے سرگرم تھا، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عوام نے اکثریتی طور پر یہ تاثر دینا شروع کردیا کہ اب ہمارے ملک میں انصاف ایک ہندؤ سے ملے گا۔۔۔جو کہ میری نظر میں غلط ہیں، مگر آنجہانی رانا بھگوان داس نے اپنی تعلیم ودیانتداری اور اپنی سرگرمیوں سے ارباب اختیار کا یہ تاثرغلط ثابت کردیا اور یہ حساس دلایا کہ وہی بہتر جسٹس جو عدلیہ کے اعلیٰ عہدے کو سنبھال سکتے ہیں۔ دراصل رانا صاحب نے قانون کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیم میں بھی ماسٹر کیا ہوا تھا، میرے خیال سے وہ ایک عام مسلمان سے زیادہ اسلام کو جانتے تھے۔


میری اُ ن سے کئی ملاقاتیں رہیں جن میں سے کچھ یادگار لمحات پیش کرنا چاہوں گا۔تقریباَ پانچ سال قبل کراچی کے مقامی ہال میں حبیب جالب کے پروگرام میں رانا صاحب مہمان خصوصی کے طور پر تقریب کا حصہ تھے، حبیب جالب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپنی تقریر میں چند ہندی اشعار کو شامل کیے مگر اشعار کے مطابق شاعرکا حوالہ درست نہ دیں سکے، تقریب کے اختتام پر میرے ہر دلعزیز دوست عشرت غزالی ایڈوکیٹ جو کہ رانا بھگوان کے شاگرد، نے میری ملاقات شریمان رانا بھگوان داس جی سے کروائی، میں نے اُس وقت اپنی زندگی کا یادگار لمحہ محسوس کیا اور رانا صاحب کے پاؤں (ہندؤ رواج کے مطابق بزرگوں کا احترام کرنا) ، مصافحہ کرتے ہوئے زبان نہ رُک سکی اور میں نے رانا صاحب سے کہہ ڈالا سر آپ نے جو اشعار پڑھے وہ میرے خیال سے تلسی داس جی کے نہیں بلکہ بھگت کبیر داس جی کے ہیں، پھر نادانگی محسوس کی۔۔۔ رانا بھگوان جی تھوڑا آگے چلے اورپیچھے مُڑ کر مجھے آواز دی اور کہا بیٹا آپ نے ٹھیک کہا ، میری غلطی تھی، پس رانا صاحب کے پاس دوبارہ گیا او انہوں نے میرے ہاتھوں کو پکڑ کر مجھے پیا ردیا اور دعا کے ساتھ کہا بہت آگے جاؤں گے ۔۔وجیش ! میں نے کہا رانا صاحب مجھے اچھا نہیں لگا کہ میں نے بغیر سوچے سمجھے آپ سے یہ کہہ دیا ۔ رانا صاحب نے ہنستے ہوئے بولے مجھے اچھا لگا۔ اُن دنوں پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت تھی اور انہیں وفاقی سروس کمیشن کا چیئر مین بنایا گیا تھا، اسی وجہ سے زیادہ تر وقت اسلام آباد میں گذارتے تھے۔ اس لیے کراچی میں مزید ملاقات کرنا مشکل تھامگر کچھ عرصہ بعد میری ملاقات ان سے بیرسٹر ثمین خان کے یہاں شیر پور ہاؤس میں ہوئی، میرے لیے یہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ رانا صاحب نے مجھے پہچان لیااور میرے نام لیکر مجھ سے ملے، مجھے خوشی محسوس ہوئی ۔ اسُی دوران کافی گفتگو ہوئی ، ہندؤ اقلیتی برادری کے حوالے سے کافی گہری سوچ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہندؤ قانون کے لیے ہمشیہ میری خدمات پیش ہیں۔ اسلامی دین کے ساتھ ساتھ ہندؤ مذہب کی بھی کافی معلومات رکھتے تھے اُسی دوران رانا صاحب کے ساتھ میری نشت کھانے پر بھی رہی اور میں غور سے دیکھ رہا تھا کہ رانا صاحب کس قسم کے کھانے کا انتخاب کرتے، مجھے ہنستے ہوئے بولے وجیش میں بھی تمہاری طرح مانساہاری(Non Vegetarian) ہوں۔۔۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ سر ایسا نہ کہیں ۔۔۔بعد ازاں میں نے رانا صاحب کو اُن کی گاڑی تک رخصت کیا اور عرض کیا کہ سر مجھے خدمت کا موقع دیں تاکہ مجھے بھی سیوا کا اوسر پراپت ہوسکے، قہقہ لگاتے ہوئے رانا صاحب نے اپنا موبائل دیا اور کہا تفصیل سے بات کرینگے۔ کچھ دنوں بعد میں نے بھگوان داس جی کو فون کیا اور درخواست کی آپ میرے غریب خانے دعوت پر تشریف لایئے ، جواب میں کہا کہ دعوت کھانا ہمارے اُصولوں کے خلاف ہیں مگر آپ اقلیتی برادری کے لیے بہت کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں ۔۔آپ اچھا کام کرو میں آپ کے ساتھ ہو۔ یہا ں اہم کا ذکر کرنا اہم سمجھتا ہوں رانا صاحب انسانیت کو اولین ترجیح دیتے تھے، اُنکے شاگرد اور میرے دوست عشرت غزالی جون جولائی یورپ کے دورے پر تھے ، عشرت کو کمپیوٹر کے بارے میں کوئی خاص علم نہیں ہے ، اُن کی ای میل آئی ڈی کسی ہیکر نے چوری کرلی اور اُن کے تمام لوگوں کو ای میل کرکے بلیک ملینگ کررہا تھا اور پیسے ارسال کرنے کی درخواست کر رہا تھا ، اُن میں سے ایک ای میل رانا صاحب اور مجھے بھی کی ، رانا صاحب نے مجھے فون کر کے فکرمندہوکر کہا وجیش ، عشرت یورپ میں مصیبت میں ہے اُس کوپیسوں کی مدد درکار ہے، پیسے بھیجنے ہیں تم رابطہ کرکے تمام معلومات بتاؤ۔ اس واقعے کو دیکھتے ہوئے یہی سوچ رہا تھا کہ یہ کتنے خوبصورت انسان ہے جو آج کل کے دور میں اپنے عزیزوں کا اتنا خیا ل رکھتا ہو۔
26 اگست 2013 کو میری دادی کے انتقال پر مجھے فون پر تعزیت کرتے ہوئے کہنے لگے بھگوان اُن کی آتما کو شانتی دے، مجھے تعجب ہوا کہ دنیا کا بھگوان آسمان کے بھگوان سے میری دادی کی مکتی کے لیے کس طر ح عرض کر رہا ہے ۔ پھر دیوالی 2013 کے موقعے پر ایک اور یادگار ملاقات اُن کے گھر پر ہوئی ، عشرت غزالی بھی میرے ہمراہ تھے اور انکی خواہش کے مطابق ہم نے رانا صاحب کے لیے میوے کا حلوہ اور ہندؤستانی پیڑے لیکر رانا صاحب گھر پہنچے ، شریمان رانا بھگوان داس جی نے دروازے پر خوش آمدید کہا اور سنجیدہ مزاج میں کہا آپ لوگ نے تکلیف کیوں کی۔ میں نے کہا سر دیوالی کا تہوار ہے اور میرے والدین نے ہمیشہ یہ ہی تربیت دی کہ تہوار کے موقعے پر اپنے بزرگوں اور استادوں کو ہمیشہ کچھ نہ کچھ نذر کیا کرو، قہقہ کرتے ہوئے بولے آپ لوگ میرے اپنے ہی ہو، اس لیے فضول خرچہ نہ کیا کرو۔
23 دسمبر 2013میرے یہاں بیٹی کی ولادت کے موقعے پر فون پر مبارک اور دعا ئیں دی اور بیٹی کو تعلیم دلوانے کی تلقین دی تاکہ تمہارے نقش قدم پر چلے۔ گذشتہ سال آزادی کے موقعے پر ڈاکٹر عبدالوہاب کے یہاں محمد علی جناح یونیورسٹی کے سیمینار میں ملاقات ہوئی غالبََ یہ میری آخری ملاقات تھی ، رانا صاحب نے مختصر تقریر میں قیام پاکستان سے لیکر 2014 حالات کو پیش کیا جسے نوجوان طالب علموں نے دلچسپی سے سنا ، تقریب کے اختتام پر میں نے انہیں پاؤں چھو کر نمشکار کیا تو کہا وجیش میرے پاؤں مت چھوا کرو، میں نے کہا سر یہ میرا فرض ہے ۔ رانا صاحب نے ڈاکٹر عبدالوہاب کی خدمات سے متاثر ہوتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ خدمت ہی نہیں بلکہ بہت بڑی عبادت بھی کر رہے ہیں جو غریب بچوں کو پرائمری اور سیکنڈری کی مفت تعلیم مہیا کر رہے ہیں۔ دو ماہ قبل میری فون پر بات ہوئی اپنی تحریر وں پر نظر ثانی کے لیے ملاقات کی گذارش کی تو مسکراتے ہوئے کہا فون کر کے آجانا ۔


اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے جسٹس رانا بھگوان داس جی کتنے سادگی پسند اور فضول خرچوں سے گریز کرتے تھے۔ درمیانی قیمت کے کپڑوں پہننااور سادے کھانے کا استعمال ، اس سے ظاہر ہوتا کہ رانا بھگوان داس جی عظیم شخصیت جو بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔
21فروری کو میری ملاقات پاکستان صحافت کی عظیم شخصیت اور میرے استاد محترم محمود شام صاحب سے ہوئی ، ملاقات کے دوران شام صاحب نے اپنے ماہنامہ اطراف کے چند شمارے رانا بھگوان داس جی کے لیے دیئے اور میں نے یقین دہانی کے ساتھ کہا کہ سر میںآپ کی امانت رانا صاحب کو بروز پیر تک پیش کردونگا ۔
مگر مجھے یہ اندازہ نہ تھا کہ وہ پیر کا دن اُن کی زندگی کا آخری دن ہوگا اور میرے لیے اُن کا آخری دیدار ہوگا ۔۔۔اب میں ایک عظیم انسان کی شفقت سے محروم ہوگیا

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں