دو براعظم ،ایک شہر استنبول 02

183727
دو براعظم ،ایک شہر استنبول 02

عدنان فاروقی:

دنیا میں بہت کم ایسے شہر ہوں گے جن سے آپ کو پہلی نظر میں پیار ہوجائے، استنبول ان میں سے ایک ہے۔ جو آدمی ایک دفعہ استنبول ہو کر آجائے یہ اس کے لیئے بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ تاریخ کے اس گہوارے کے بارے میں بغیر تعریفی کلمات کے بات کر سکے۔
دنیا میں کچھ شہر تاریخی ہونے کی بنا پر مشہور ہیں ، کچھ شہرسیاحوں کے لیئے پر کشش ہیں، کچھ کاروباری اعتبار سے مشہور ہیں ، کچھ اپنے قدرتی مناظر کی وجہ سے مشہور ہیں۔ استنبول میں یہ سب خوبیا ں موجود ہیں، یہ واحد شہر ہے جو دو براعظموں میں آباد ہے۔ دنیا کی تحریر شدہ تاریخ میں غیر ملکی افواج نے جس شہر کے سب سے زیادہ محاصرے ہوئے ہیں وہ یہی ہے۔١۲۰ سے زیادہ شہنشاہ اور سلطان اس شہر کے حکمراں رہیں ہیں ، یہ اعزاز بھی کسی اور شہر کے پاس نہیں ہے ، صدیو ں تک یہ شہر یورپ کاسب سے کثیرالقومی اور کثیر السانی شہر رہا ہے۔
استنبول رومن ، بازنطينی اور عثمانی تہذیبوں کا مرکز رہا ہے ،تقریباً ۲۵۰۰ سال سے یہ شہردنیا کے لیئے مقناطیسی کشش رکھتا ہے ، استنبول عیسائی زائیرین کے لیئے یروشلم سے پہلے ایک پڑاؤ کی حیثیت رکھتاتھا۔ اس اہمیت میں اضافہ چھٹی صدی عیسوی میں اور بڑھ گیا جب بازیطینی شہنشاہ جسٹنٹائن نے حاگیا صوفیا تعمیر کیا ، جوتقریباً ہزار سال تک عیسائیت کا عظیم ترین گرجا گھر رہا ہے۔
اس شہر کا نام پہلی بار ٦٦۰ قبل مسیح میں یونانی بادشاہ بائی زاس کے نام پر بزانطیم رکھا گیا ، رومنوں نے ۳۳۰ عیسوی میں اس کا نام تبدیل کرکے اپنے شہہنشاہ کنسٹائین اعظم کے نام پر کنٹسٹن ٹی پولس رکھ دیا گیا۔ پندرہوی صدی عیسوی کے وسط سے عثمانی ترکوں نے اسے قسطنطينيه کا نام دیا ۔ انیسویں صدی عیسوی سے اس شہر کو اپنے مکینوں اور غیرملکیوں کے جانب سے کئی نام دئیے گئے ۔ یورپی اس شہر کو کنٹسٹن ٹی پول جبکہ ترک ستامبول ، بی یو گلو، اور اسلام بول کے نام سے پکارا کرتے، موجودہ نام استنبول ١۹۳۰ سے سرکاری طور سے مستعمل ہے۔ استنبول شہر سات پہاڑیوں پر تعمیر کیا گیا ہے، ان سات پہاڑیوں پر تعمیر شدہ مساجد دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
١۴۵۳ میں سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ بازنطینی حکمرانوں کی شکست دے کر حاصل کیا، سلطان کے عہد میں اس شہر نے بے پنا ہ ترقی کی ، اس نے تمام مذاہب اور نسلوں کے لوگوں کو دعوت دی کہ اس شہر میں آباد ہوکر اس کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ کچھ ہی عشروں میں دنیا بھر سے تاجر وںاور کاریگر وں نے استنبول کو اپنا نیا ٹھکا نہ بنا لیا، ان میں آرمینین ،یہودی ، اطالوی اور یونانی شامل تھے۔ اس برداشت اور رواداری کی پالیسی کا ثمر آج کی ترک قوم کو مل رہا ہے۔ ان تاجروں اور کاریگروں کے لیے سلطان محمد فاتح نے ایک ڈھکا ہوا بازار تعمیر کیا گیا جو آج بھی گرینڈ بازار کے قلب میں واقع ہے ۔ صدیوں تک استنبول نے دنیا کی تجارت میں کلیدی کردارادا کیا ہے ۔
استنبول میں میں ستر سےذائد عجائب گھر ہیں ، سیاحوں کے پسندیدہ توپ کاپی اور حاگیا صوفیا سے ہونے والی آمدنی تین کروڑ ڈالر سالانہ سے ذیادہ ہے۔ حاگیاصوفیا سے چندسو میٹر شمال میں توپ کاپی کا عجائب گھر ہے جوعثمانی خلفہ کے رہائشی اور درباری مقاصد پورا کیا کرتا تھا۔ چند سو میٹر جنوب میں سلطان احمد مسجدواقع ہے جو کہ نیلی مسجدکے نام سے مشہو ر ہے ۔ اس کے ساتھ ہی رومن زمانے کے ہیپوڈروم ہیں ۔استنبول کا یہ حصہ آپ کو ایک بڑا سا عجائب گھر معلوم ہوتا ہےجہاں تینوں تہذیبوں کی طرز تعمیر ، غیر معمولی تاریخی وراثت ہر گلی کی نکڑ پر آپ کو ملتی ہے۔ استنبول میں سترہ محل ، ٦۴ مساجد اور ۴۹ گرجا گھر تاریخی اہمیت کے حامل ہیں ۔ یونیسکو نے استنبول میں کئی جگہوں کو عالمی ورثہ قرار دیا ہے ۔ بلاشبہ استنبول ترکی کا سماجی ، فنکارانہ اور تجارتی مرکز ہے۔
۲۰١۰ میں استنبول یورپی یونین کا تہذیب کو دارلحکومت قرار پایا تھا ۔ شہر کا رقبہ ۵۳۴۳ کلومیٹر یا ۲۰٦۳ میل ہے جبکہ آبادی ایک کروڑ چالیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ آبادی کے حساب سے دنیا کا پانچواں بڑا شہر استنبول ہے۔ ۲۰١۳ میں ایک کروڑ سے زائد سیاح استنبول گھومنے آئے یہ تعداد دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے ۔ ترکی کی مجموعی پیداوار کا ایک چھوتھائی سے زائد استنبول سے حاصل ہوتا ہے ، اسی شہر میں ۳۷ ارب پتی بھی رہتے ہیں، ارب پتیوں کی تعداد کے حساب سے دنیا کا پانچواں بڑا شہر استنبول ہے۔ موسم گرما میں استنبول میں ایک ہی وقت مختلف مقامات پر درجہ حرارت میں بارہ سے پندرہ درجہ سینٹی گریڈ کافرق بھی پایا جاتا ہے۔ یہ چیزبھی اس کو دیگر شہروں سے ممتاز کرتی ہے۔
استقلال اسٹریٹ پر ایک ہی مقام پر واقع مسجد ، گرجا گھر اورسینی گاگ اس بات کا مظہر ہیں کہ ترکی کے لوگ بلعموم اور استنبول کے باشندے بلخصوص مذہبی رواداری اور آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔
ترکی کے پکوان بے انتہاءلذیذ ہوتے ہیں ، چاہے آپ سڑک کے کنارے ٹھیلے سے لیکر کھائیں یا پانچ ستارے والے ہوٹل میں، گوشت میں ایک خاص قسم کی نرماہٹ ہوتی ہے، صرف بیگن کو ستر سےذائد طریقوں سے پکایا جاتا ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو نواز١ہے تو آپ ذندگی میں ایک دفعہ ضرور استنبول کی سیاحت پر جائیں۔
استنبول کی تعریف یوں تو کئی اکابرین عالم نے کی ہے لیکن فرانسیسی حکمراں نپولین نے جامع ترین جملہ کہا ہے ۔ اگر دنیا ایک ملک ہوتا تو استنبول اس کا دارلخلافہ ہوتا۔


الطاف احمد:
میرے مالک نے دنیا بھی کتنی پرشکوہ بنائی ہے کہ انسان حیرت کی انتہاؤں میں گم ہوجاتا ہے اور اگر بات ہو مسلم ممالک کی تو میرے رب کریم نے تو انہیں جاذب نظر اور قدرتی وسائل سے مالا مال کررکھا ہے اور ان کی خوبصورتی ایسی کہ زبان گنگ اور ذہن ماؤف ہوجاتے ہیں۔مسلم ممالک کے انہی شہروں میں ایک دلفریب شہر استنبول ہے جو سمندر کے کنارے آباد ایشیا اور یورپ کے براعظموں کو ایسے ملاتا ہے کہ یورپ کو خوبصورتی اور ایشیا کو جدت سے آشنا کرتاہے اور یہ ایسا واحد شہرہے کہ اس جیسا دنیا میں کوئی دوسرا شہر اس معلوم کرۂ ارض پر موجود نہیں جو دو براعظموں کو ملاتا ہو۔
تاریخ
استنبول سلطنت عثمانیہ کا دارلحکومت رہا ہے، جسے انتیس مئی چودہ سو تریپن عیسوی کو سلطان محمد فاتح نے فتح کر کے اسلامی دنیا کا حصہ بنایا اور سلطان محمد فاتح اور اس کے سپاہی نبی کریم ﷺ کی اس بشارت کے مستحق ٹھہرے کے جو لشکر اس شہر کو فتح کرے گا وہ جنتی ہوگا۔
جاذبیت
اس شہر یعنی استنبول کی سیا حت کو جانے والوں کواس کی بلندو بالا عمارات ، سبزہ زاروں اور نیل گوں اسمان کو چھوتے میناروں والی مساجد ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہیں ۔
محل وقوع
استنبول ایشیا کے جانب اناطولیہ اور یورپ کی جانب یورپ کے علاقے تھریس تک پھیلا ہوا شہر ہے ۔ استنبول کا شہری رقبہ تقریباً پندرہ سو انتالیس مربع کلو میٹر ہے۔
سیاحت
استنبول شہر کی جاذبیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہو جاتا ہے کہ اس کے دیکھنے والے مداحوں یعنی سیاحوں کی تعدادسالانہ تین کروڑ بیس لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے اور یہ انفرادیت دنیا میں صرف استنبول کو حاصل ہے۔
ذرائع آمد و رفت
ذرائع آمد و رفت ترقی یافتہ ملکو ں کے ہم پلہ ہیں۔
استنبول كا موسم
استنبول کا موسم بھی استنبول کی طرح بڑا ہی دلفریب اور معاون ہے۔ موسم سرما میں اوسط درجہ حرارت تقریباً سات سے نو اور موسم گرما میں اٹھائیس اور تئیس کے درمیان رہتا ہے۔
تعلیمی ادارے اور کتب خانے
استنبول علم و کتاب سے جڑے شہریوں کا شہر ہے،ترکی کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سے کئی استنبول میں واقع ہیں۔ زیادہ تر جامعات سرکاری انتظام میں ہیں۔
زرعی پیداوار اور مصنوعات
استنبول کی زرعی پیداور میں ریشم ،تمباکو، کپاس زیتون اور مصنوعات میں کپڑا ،برقی مصنوعات، دھاتی اشیاء، مشینری، کاغذ اور چمڑے کی اشیا شامل ہیں۔

 

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں