دوبراعظم ۔ ایک شہر: استنبول ۔ 01

ایک براعظم ۔دو شہر استنبول منجانب عالیہ ارم کراچی اور عابد حسین اٹلی

177791
دوبراعظم ۔ ایک شہر: استنبول ۔ 01

عالیہ ارم : کراچی
استنبول کا قدیم نام قسطنطنیہ تھا اور یہ شہر ماضی میں یونانی، رومی اور مسلمان سلطنتوں میں دارالخلافہ جیسی اہم حیثیت کا حامل رہا ہے۔ جدید ترکی میں یہ ایک اہم تجارتی و ثقافتی مرکز کی وجہ سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ استنبول دنیا کا وہ واحد شہر ہے جو دو براعظموں،ایشیاء اور یورپ، کو ملاتا ہے۔ان دونوں براعظموں کو ملانے والا پُل عظیم سلطان فاتح مہمد (مہمت) کے نام سے منسوب ہے۔
استنبول میں ایک اور قابل دید پُل ،اتاترک پُل یا باسفورس پُل ہے جو جرمن اور انگریز معماروں کا تعمیر کردہ ہے۔ استنبول شہر کا طرز زندگی مجموعی طور پہ یورپی ثقافت سے میل کھاتا نظر آتا ہے مگر اس کے ایشیائ اور یورپی حصوں میں موجود تاریخی عمارتیں مختلف ادوار کے قصے سناتی نظر آتی ہیں۔
ایشیائ استنبول میں مقامی بازاروں کے ساتھ ساتھ تاریخی طرز کے بازار سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ اس حصے پہ سلطنت عثمانیہ کا اثر یہاں موجود تاریخی مساجد، آبشاروں، فواروں، اور محلات سے عیاں ہے۔ باسفورس میں واقع قزقلاسی (میڈن ٹاور) اپنی خوبصورت طرز تعمیر اور تاریخی پس منظر کی وجہ سے پُر کشش ہے۔
یورپی استنبول بھی اپنے دامن میں بہت سے ادوار میں تعمیر کی گئی عمارتیں سمیٹے ہوۓ ہے۔ آیا صوفیہ کی عمارت، جو کہ ابتدائ طور پہ ایک چرچ تھی، سلطنت عثمانیہ میں ایک اہم مسجد کے طور پہ استعمال کی جاتی رہی ہے۔ بزنٹائن طرز تعمیر کی اس شاہکار عمارت کا ڈیزائن سلطنت عثمانی کی بہت سی مساجد کے لۓ نمونے کے طور پہ استعمال ہوا ہے۔
مسجد سلیمانی (نیلی مسجد) سلطنت عثمانیہ کے عظیم سلطان سلیمان کے نام سے منسوب ہے اور اس مسجد کے گنبد اور چھ ستون اپنی منفرد تعمیر کی وجہ سے فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہیں۔
توپکاپی محل ایک عرصے تک سلطنت عثمانیہ کے مرکزی محل کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کا ڈیزائن اور طرز تعمیر آج بھی شاندار ماضی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مندرجہ بالا عمارات کے علاوہ بہت سی دیگر تاریخی عمارات و مقامات اس شہر کی اہمیت کو دو چند کرتے ہیں۔ جدید ترکی کے اس جدید استنبول میں استقلال سٹریٹ کے آخری سرے پہ واقع ٹاقسم چوک کو شہر کے اہم تجارتی و ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ دنیا بھر سے آۓ سیاح ، طلبا اور مقامی افراد یہاں خریداری کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں۔
استنبول دو براعظموں کو ملانے والاعظیم شہرہے جو ماضی کی عظیم الشان سلطنتوں کے عروج و زوال کی داستانیں اور دو بر اعظموں کی ثقافتیں اپنے دامن میں سمیٹ کر دور جدید کے باسیوں کو دعوتِ نظارہ دیتا ہے۔


عابد حسین: اٹلی

استنبول آبنائے باسفورس کے جنوبی علاقے میں دونوں جانب واقع ہے اس طرح وہ دو براعظموں میں واقع دنیا کا واحد شہر ہے ۔ شہر کا مغربی حصہ یورپ جبکہ مشرقی حصہ ایشیا میں ہے ۔ شہری حدود ایک ہزار 539 مربع کلومیٹر تک ہیں جبکہ صوبہ استنبول 5 ہزار 220مربع کلومیٹر پرمحیط ہے ۔
تاریخ میں قسطنطنیہ کے نام سے مشہور ترکی کا شہر استنبول (ترک: İstanbul، یونانی: Κωνσταντινούπολις Konstantinoúpolis، انگریزی: تاریخی طور پر Constantinople کے نام سے جانا جاتا ہے ) ملک کا سب سے بڑا شہر اور اس کا ثقافتی و اقتصادی مرکز ہے ۔ شہر صوبہ استنبول کا صدر مقام بھی ہے ۔
آبنائے باسفورس اور اس کی قدرتی بندرگاہ شاخ زریں (انگریزی: Golden Horn، ترک: Haliç) کے کنارے واقع ترکی کا یہ شمال مغربی شہر باسفورس کے ایک جانب یورپ کے علاقے تھریس اور دوسری جانب ایشیا کے علاقے اناطولیہ تک پھیلا ہوا ہے اس طرح وہ دنیا کا واحد شہر ہے جو دو براعظموں میں واقع ہے ۔ استنبول تاریخ عالم کا واحد شہر جو تین عظیم سلطنتوں کا دارالحکومت رہا ہے جن میں 330ء سے 395ء تک رومی سلطنت، 395ء سے 1453ء تک بازنطینی سلطنت اور 1453ء سے 1923ء تک سلطنت عثمانیہ شامل ہیں۔ 1923ء میں ترک جمہوریہ کے قیام کے بعد دارالحکومت انقرہ منتقل کردیا گیا۔
2000ء کی مردم شماری کے مطابق شہر کی آبادی 88 لاکھ 3 ہزار 468ء اور کل شہری حدود کی آبادی ایک کروڑ 18ہزار 735ہے اس طرح استنبول یورپ کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے ۔ شہر کو 2010ء کے لئے پیکس، ہنگری اور آسن، جرمنی کے ساتھ یورپ کا ثقافتی دارالحکومت قرار دیا گیا ہے ۔تاریخ میں شہر نے مکینوں کی ثقافت، زبان اور مذہب کے اعتبار سے کئی نام بدلے جن میں سے بازنطیم، قسطنطنیہ اور استنبول اب بھی جانے جاتے ہیں۔ شہر کو ”سات پہاڑیوں کا شہر “ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ شہر کا سب سے قدیم علاقہ سات پہاڑیوں پر بنا ہوا ہے جہاں ہر پہاڑی کی چوٹی پر ایک مسجد قائم ہے
تاریخ
بازنطین
دراصل میگارا کو یونانیوں نے 667 قبل مسیح میں آباد کیا تھا اور اسے اپنے بادشاہ بائزاس کے نام پر بازنطین کا نام دیا۔ 196ء میں سیپٹیمیس سیویرس اور پیسکینیس نائیجر کے درمیان جنگ میں شہر کا محاصرہ کیا گیا اور اسے زبردست نقصان پہنچا۔ فتح حاصل کرنے کے بعد رومی حکمران سیپٹیمیس نے بازنطیم کو دوبارہ تعمیر کیا اور شہر نے ایک مرتبہ پھر کھوئی ہوئی عظمت حاصل کرلی۔
بازنطینی سلطنت کی حکمرانی
بازنطیم کے پرکشش محل وقوع کے باعث 330ء میں قسطنطین اعظم نے مبینہ طور پر ایک خواب کے ذریعے مقام کی درست نشاندہی کے بعد اس شہر کو نووا روما (روم جدید) یا قسطنطنیہ (اپنے نام کی نسبت سے ) کے نام سے دوبارہ آباد کیا۔ نووا روما تو کبھی بھی عام استعمال میں نہیں آسکا لیکن قسطنطنیہ نے عالمی شہرت حاصل کی۔ یہ شہر 1453ء میں سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں فتح ہونے تک مشرقی رومی سلطنت کا دارالحکومت رہا۔ بازنطینی دور حکومت کے دوران چوتھی صلیبی جنگ میں صلیبیوں نے شہر کو برباد کردیااور 1261ء میں مائیکل ہشتم پیلیولوگس کی زیر کمان نیسیائی افواج نے شہر کو دوبارہ حاصل کرلیا۔روم اور مغربی رومی سلطنت کے خاتمے کے بعد شہر کا نام قسطنطنیہ رکھ دیا گیا اور یہ بازنطینی سلطنت کا واحد دارالحکومت قرار پایا۔ یہ سلطنت یونانی ثقافت کی علمبردار اور روم سے علیحدگی کے بعد یونانی آرتھوڈوکس عیسائیت کا مرکز بن گئی ۔ بعد ازاں یہاں کئی عظیم گرجے اور کلیسے تعمیر ہوئے جن میں دنیا کا سب سے بڑا گرجا ایاصوفیہ بھی شامل تھا جسے سلطان محمد فاتح نے فتح قسطنطنیہ کے بعد مسجد میں تبدیل کردیا۔اس شہر کے زبردست محل وقوع کی وجہ ہی سے یہ کئی زبردست محاصروں کے باوجود فتح نہ ہو سکا جن میں خلافت امویہ کے دور کے دو محاصرے اور پھر سلطنت عثمانیہ کے ابتدائی دور کے متعدد ناکام محاصرے شامل ہیں۔
سلطنت عثمانیہ کا دور
29 مئی 1453ء کو سلطان محمد فاتح نے 53 روزہ محاصرے کے بعد قسطنطنیہ کو فتح کرلیا۔ محاصرے کے دوران عثمانی افواج کی توپوں سےتھیوڈوسس ثانی کی قائم کردہ دیواروں کو زبردست نقصان پہنچا۔ اس طرح استنبول بروصہ اور ادرنہ کے بعد سلطنت عثمانیہ کا تیسرا دارالحکومت بن گیا۔ترک فتح کے بعد اگلے سالوں میں توپ قاپی محل اور بازار کی شاندار تعمیرات عمل میں آئیں۔ مذہبی تعمیرات میں فاتح مسجد اور اس سے ملحقہ مدارس اور حمام شامل تھے ۔ عثمانی دور میں شہر مختلف مذاہب اور ثقافتوں کا مرکز رہا اور مسلمان، عیسائی اور یہودی سمیت مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی کثیر تعداد یہاں رہائش پذیر رہی۔سلیمان اعظم قانونی کا دور تعمیرات اور فن کا عمیق دور تھا جس کے دوران اس کے ماہر تعمیران سنان پاشا نے شہر میں کئی عظیم الشان مساجد اور عمارات تعمیر کیں۔
جمہوریہ ترکی
1923ء میں ترک جمہوریہ کے قیام کے بعد دارالحکومت استنبول سے انقرہ منتقل کردیا گیا۔ عثمانی دور میں شہر کا نام قسطنطنیہ موجود رہا جبکہ سلطنت سے باہر اسے استامبول کے نام سے جانا جاتا تھا تاہم 1930ء میں جمہوریہ ترکی نے اس کا نام تبدیل کرکے استنبول کردیا۔جمہوریہ کے ابتدائی دور میں انقرہ کے مقابلے میں استنبول پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی لیکن 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں استنبول میں زبردست تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ شہر کی یونانی برادری 1955ء کے معاہدے کے تحت ترکی چھوڑ کر یونان چلی گئی۔1950ء کی دہائی میں عدنان میندریس کی حکومت کے دوران ملکی ترقی کے لئے کئی کام کئے گئے اور ملک بھر میں نئی سڑکیں اور کارخانے تعمیر ہوئے ۔ استنبول میں بھی جدید کشادہ شاہراہیں قائم ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ سودا شہر کی قدیم عمارات کے بدلے میں کیا گیا اور استنبول کئی قدیم عمارات سے محروم ہوگیا۔1970ء کی دہائی میں شہر کے مضافات میں قائم نئے کارخانوں میں ملازمت کی غرض سے ملک بھر سے عوام کی کثیر تعداد استنبول پہنچی جس نے شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ آبادی میں تیزی سے اضافے کے بعد تعمیراتی شعبے میں بھی انقلاب آیا اور کئی مضافاتی دیہات توسیع پاتے ہوئے شہر میں شامل ہوگئے ۔

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں