ترکی اور عالمی ایجنڈا ۔100

211306
ترکی اور عالمی ایجنڈا   ۔100

ترکی کی غیر ملکی پالیسی گزشتہ کئی ایک ہفتوں کے دوران بڑی فعال دیکھی جا رہی ہے۔ ترکی کو دنیا کے چند ایک مرکزی ممالک میں سے ایک کی حیثیت حاصل ہونے کی وجہ سے بھی ا س کی پالیسیوں کو دنیا بھر میں بڑی توجہ سے دیکھا جا رہا ہے۔
شام سے عراق اور یوکرائن ، ایران سے مصر تک کئی ایک مسائل ترکی کے ارد گرد رونما ہو رہے ہیں اور ترکی ان مسائل کو حل کرنے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ترکی پہلی ہی بار بین الاقوامی مسائل میں دلچسپی نہیں رہا ہے بلکہ گزشتہ دس سالوں کے دوران بڑھ چڑھ کر ان مسائل کو حل کرنے میں مصروف ہے۔ ترکی سن 2003 تا 2007 یورپی یونین کے ساتھ مستقل رکنیت، 2007 تا 2010 مشرق وسطیٰ ، کاکیشیا اور بلقان میں امن کے قیام، 2009 تا 2011 اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی عبوری رکنیت، 2011 تا 2013 بہار عرب میں ایک ماڈل ملک کی حیثیت اختیار کیے ہو ئے ہے۔ ترکی اور شام کے درمیان بہار عرب کی وجہ سے پیدا ہونے والی کشیدگی سے بھی اس ملک کی پالیسی متاثر ہو رہی ہے۔
علاقے میں اور دنیا میں ہونے والی مثبت اور منفی پیش رفت نے ترکی کو علاقے میں مزید فعال کردار ادا کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ ترکی یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ متحدہ امریکہ، روس اور ایران کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو بڑھانے کی جانب ہمیشہ ہی سے توجہ دیتا چلا آیا ہے۔
مارمرہ یونیورسٹی کے شعبہ سیاسی علوم اور بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ
گزشتہ ہفتے ڈپلومیسی کے بارے میں جن موضوعات کی طرف خصوصی توجہ دی گئی وہ کچھ یوں تھے۔ صدر ایردوان کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت ، وزیراعظم احمد داؤد اولو کا کئی سال کے طویل عرصے کے بعد بغداد اور عربیل کا دورہ ، وزیراعظم داؤد اولو کی جی 20 کے سربراہی اجلاس میں شرکت، متحدہ امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن کا دورہ ترکی اور اٹلانٹیک کونسل کے اجلاس میں شرکت اور صدر ایردوان سے چار گھنٹے جاری رہنے والی ملاقات۔ اس کے علاوہ 28 نومبر کو کیتھولیک دنیا کے روحانی پیشوا پاپ اور یکم دسمبر کو روس کے صدر مملکت پوتین کا دورہ ترکی بھی اہم موضوعات میں شامل ہیں۔
یہ تمام دورے اور موضوعات ترکی کی ڈپلومیسی کے لحاظ سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ترکی اور عراق کے مشترکہ طور پر دولت ِاسلامیہ کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے فیصلے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بھی پیش رفت دیکھی گئی ہے۔ ترکی نے پیش مرگوں اور عراقی فوجی دستوں کو ٹریننگ فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور اس طرح دولتِ اسلامیہ کے خلاف فوجی امداد میں اضافہ کردیا ہے۔ اب ترکی اور متحدہ امریکہ کے درمیان تعاون میں مزید اضافہ دیکھا جا سکے گا لیکن اس بارے میں شام کے صدر کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے بارے میں کی جانے والی کوششوں کے بعد ہی کچھ کہا جاسکے گا۔ متحدہ امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن کا دورہ ترکی اور استنبول میں جو بائیڈن کی صدر ایردوان سے چار گھنٹے کی ملاقات بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اسی ملاقات کے دوران شام میں بشار الاسد کو ان کے عہدے سے سبکدوش کیے جانے کے معاملے پر بھی غور کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق متحدہ امریکہ کی شام سے متعلق اور خاص طور پر صدر بشار الاسد کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بارے میں بھی پالیسی میں فرق محسوس کیا گیا ہے ۔
ترکی اور متحدہ امریکہ توانائی کے معاملے میں ایک دوسرے سے گہرا تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اٹلانٹیک کونسل کے استنبول کے اجلاس میں ترکی کے توانائی کے معاملے میں ایک کاریڈور ملک کی حیثیت اختیار کرنے کے رول کی اہمیت بھی ابھر کر سامنے آئی ۔ وزیراعظم احمد داؤد اولو اور متحدہ امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن کے کونسل میں خطاب کے دوران بھی اس موضوع کو اجاگر کیا گیا۔
اس پیش رفت کو بلا شبہ کئی ایک ممالک نے بڑے قریب سے دیکھا ہے ۔ قریب سے جائزہ لینے والے ممالک میں بلا شبہ روس بھی شامل ہے۔ روس کے پٹرول اور قدرتی گیس کی پیداوار کی ترسیل کے لیے ترکی بلا شبہ بڑے اہم ملک کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ روس کے اس ترسیل کے لیے کاریڈور کا فریضہ ادا کر رہا ہے۔ ترکی ایک لحاظ سے روس کے پٹرول اور قدرتی گیس کی ترسیل کے لیے ایک پارٹنر ملک کی بھی حیثیت رکھتا ہے۔ روس کے بلیو سٹریم کے ساتھ ساتھ ترکی نیوکلئیر پروگرام سے بھی فائدہ اٹھا رہا ہے اور روس اس سلسلے میں ترکی میں نیو کلئیر پاور پلانٹ کی تیار ی میں ترکی کی مدد کرہا ہے۔
تاہم دونوں ممالک شام کے بارے میں ایک دوسرے سے بڑی مختلف پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ترکی متحدہ امریکہ اور یورپ کے ساتھ مل کر شام کے صدر بشار الاسد کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہے تو روس اور ایران شام کے صدر کے پاؤں مضبوط بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس طرح شام میں سیاسی بحران پر قابو پانا کوئی آسان کام دکھائی نہیں دیتا ہے۔ عالمی برادری شام کے سیاسی بحران کو کس طریقے سے حل کیے جانے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکی ہے۔ شام کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے پہلے سے زیادہ موثر اور اہم کردار کو ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سیاست سے باہر کی دنیا کا کوئی رہنما یا اہم شخصیت کوئی کردار ادا کر سکتی ہے؟ مثال کے طور پر پاپ فرانسیس کیا ایسا کردار ادا کرسکتے ہیں؟ کیا پاپ کادورہ ترکی اس مسئلے کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے؟ اگرچہ پاپ نے کسی سیاسی موضوع پر آج تک کوئی مداخلت نہیں کی ہے تاہم عالم عیسائیت پاپ کے اس موضوع پر عیسائی برادری کی مکمل حمایت حاصل ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ اب دنیا کی نظریں 28 تا 30 نومبر پاپ کے دورہ ترکی پر مرکوز ہو کر رہ گئی ہیں۔ کیا ان کا یہ دورہ مفید ثابت ہوسکتا ہے؟


ٹیگز:

متعللقہ خبریں