ترکی کی تاریخی،سیاحتی و ثقافتی اقدار 43

استنبول: قدیم و جدید تہذیب کا جیتا جاگتا شاہکار شہر

177398
ترکی کی تاریخی،سیاحتی و ثقافتی اقدار 43

: استنبول دنیا کے چند بہترین سیاحتی شہروں میں شمار ہوتا ہے ۔ اس کے شمال میں بحیرہ اسوداور جنوب میں بحیرہ مارمرہ واقع ہیں جو کہ اپنی فطری خوبصورتی اور تاریخی عجائبات سے توجہ حاصل کرنے کا باعث بنتا ہے ۔استنبول شہر کی تاریخ چار سو سال قبلِ مسیح پر محیط ہے ۔ ساتویں صدی قبلِ مسیح میں کالکودون نامی قوم نے قاضی کوئے کے قریب آباد کاری کا آغاز کیا تھا کہ جس کے بعد بازینتیون نے یہاں ایک شہر کی بنیاد ڈالی ۔ اس شہر کی تاریخ کے بارے میں عہد روم کے قیام تک کسی خاص قسم کی معلومات کا فقدان ہے لیکن رومی سلطنت کے فرماں روا کونستان تینوس نے سن تین سو تیس مین اس شہر کی تعمیر نو کرتےہوئے یہاں کافی تعداد میں معبد اور میدان بنوائے اور اس شہر کے گرد فصیلیں تعمیر کرواتےہوئے اسے اپنی سلطنت کا صدر مقام قرار دیا ۔ سن تین سو پچانوے میں اس شہر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا جس کے بعد اسے کوستانتینو پولس کے نام سے پکارا جانے لگا۔
استنبول سیاحتی اعتبار سے اہم مراکز میں شمار ہوتا ہے ۔ ان تاریخی مقامات میں آیا صوفیہ، سلطان احمد، گرانڈ بازار اور قصر توپ کاپی قابلِ ذکر ہیں۔ تاریخی سلطان احمد میدان میں ایک ہیپوڈروم موجود ہے کہ جسے رومی فرماں روا سیپ تیموس سیویریوس کی طرف سے شروع کرتےہوئے کوستان تینوس نے مکمل کروایا تھا۔ اس کے علاوہ وہاں ایک طویل پتھر بھی موجود ہے کہ جسے تیودوسیوس کے حکم پر مصر سے سن تین سو نوے میں لایا گیا تھا۔ اس ستون کی طوالت تقریباً ساڑھے اٹھارہ میٹر ہے کہ جس پر کندہ شبیہات مصری فرماں روا توت موسیس سوئم کی فتوحات کو بیان کرتی ہیں۔اس کے پہلو میں ایک دیگرستون موجود ہے کہ جو کوستانتی نیوس ہفتم نے یہاں نصب کروایا تھا۔
اس کے علاوہ سات پہاڑیوں پر آباد شہر استنبول کے علاقے چیمبر لی تاش میں سن 328 میں کونستان تینوس اول کی طرف سے رومی میں واقع اپولون کے معبد سےلایا جانے والا ستون نصب ہے ۔اس ستون کی مرمت عثمانیوں کے دور میں وقتاً فوقتاً کی جا تی رہی ہے ۔ اس کے علاوہ یہاں پر آرکادیوس ، گوتلار نامی ستون بھی نصب ہیں۔


استنبول میں تاریخی مساجد کی بھی کمی نہیں ہے لیکن ان میں سب سے اہم سلطان احمد جامع مسجد، آیا صوفیہ اور سلیمانیہ جامع مسجد شامل ہیں۔ بازنطینی دور سے وابستہ آیا صوفیہ ایک پرانے گرجا گھر پر سن 532 اور 537 کے درمیان ایوستینانوس نے تعمیر کروایا تھا۔ اس گنبد نما عمارت کی سطح زمین سے بلندی 55 میٹر ہے کہ جو مشرقی اور مغربی طرز تعمیر کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ یہ عظیم الشان عمارت فن معماری کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے جو کہ تاحال اپنی بنیادوں پر کھڑی ہونے میں کامیاب رہی ہے۔ اس عمارت کی دیواروں اور چھتوں پر حضرتِ مریم ، بعض فرشتوں اور حضرت عیسی کی فرضی شبیہات سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہیں۔
استنبول پر عثمانیوں کے قبضے کے بعد آیا صوفیہ کو ایک مسجد میں تبدیل کر دیا گیا کہ جس کے باہر چار مینار تعمیر کروائے گئے اس کے علاوہ یہاں پر محمود اول نے ایک کتب خانہ اور دیوان خاص بھی تعمیر کروایا گیا ۔ بعد ازاں عثمانی خلفا نے اس عمارت میں بعض آیتیں بھی کندہ کروائیں ۔عثمانیوں نے اس عمارت کو ایک مقدس مقام کا درجہ دے رکھا تھا یہی وجہ ہے کہ اس عمارت کے احاطے میں سلطنا سلیم دوئم،مراد سوئم،مہمد سوئم اور مصطفی اول کی قبریں موجود ہیں۔ آیا صوفیہ کے پہلو میں موجود سلطان احمد سوئم کے نام پر موجود خیراتی سبیل اٹھارویں صدی میں بنوائی گئی تھی ۔
ترک اسلام فن معماری کی شاندار مثال سلطان احمد جامع مسجد سترہویں صدی کے اوائل میں عثمانی خلیفہ احمد اول کے حکم پر معمار محمد آغا نے تعمیر کی تھی ۔ اس مسجد کی تعمیر میں نیلی، سبز اور سفید چینی کاری کا کام انتہائی نفاست سے کیا گیا ہے ۔مسجد کے اندرونی حصوں مین تقریباً بیس ہزار کے لگ بھگ چینی سے مشابہہ آرائشی و زیبائشی پتھروں کا استعمال کیا گیا ہے۔مسجد میں قرآنی آیات اور خطاطی بھی اعلی ذوق کی ترجمانی کرتی ہے کہ جس کا سہرا سید قاسم غُباری کے سر جاتا ہے ۔ سلطان احمد جامع مسجد کے چھ مینار ہیں کہ جو بھی اعلی طرز تعمیر کا شاہکارہیں۔ ان میں سے چار مینار مسجد کے اطراف میں جبکہ دو اس کے احاطے میں نصب ہیں۔مسجد میں اس کے علاوہ سلطان احمد اول کی قبر،مدرسہ ، دارالشفا، بازار بھی موجوود ہیں۔
تاریخی بازاروں کا جب ذکر ہو تو استنبول کی صحافلار پیتل سازی بازار اور مصر بازار کا نام سر فہرست ہوتا ہے۔ امین اونو کے علاقے میں واقع مصر بازار سترہویں صدی کے درمیانی عرصے میں تراشے ہوئے پتھروں اور اینٹوں تعمیر کیا گیا تھا جس میں ایک سو کے قریب دوکانیں موجود ہیں۔ ان دوکانوں میں مصالحے، پھول اور پالتو جانور فروخت کیے جاتے ہیں۔بند بازار یا گرانڈ بازار پندرہویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی کہ جو متعدد بار آتشزدگی کا شکار رہی ۔اس بازار میں تین ہزار دوکانیں اور ساٹھ گلیاں موجود ہیں۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں