ترکی کی تاریخی،سیاحتی و ثقافتی اقدار 42

تاریخی تہذیب کے آئینہ دار شہر اماسیا اور توکات

166784
ترکی کی تاریخی،سیاحتی و ثقافتی اقدار 42

: شمالی ترکی میں واقع اماسیا اور توکات تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے کافی اہم شہروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اماسیا چودہویں صدی کے اعتبار سے عثمانیوں کے قبضے میں آگیا کہ جہاں مختلف بادشاہوں اور شہزادوں کی پرورش ہوئی اس لیے اماسیا کو شہزادوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے ۔

تاریخ بھر یہ دونوں شہر مختلف تہذیبوں کے گہوارے رہے کہ جہاں سلجوکیوں کے بعد کچھ عرصے ارتانہ ریاست کا بھی اثر رہا ۔ دونوں شہروں میں ہوا خشک اور سرد پائی جاتی ہے ۔
اماسیا حالیہ دور میں سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن رہا ہے۔ غیر ملکی سیاحوں کی اس توجہ کا سبب در اصل یہاں کی تاریخی اور ثقافتی رنگینیاں ہیں ۔ عموما غیر ملکی سیاح کاپادوکیا کے بعد اس شہر کی بھی سیر کو آتے ہیں۔
اماسیا اور اس کے قریب واقع تاریخی قبرستان،ہعشینا کا قلعہ، یالی بویو مکانات اہم سیاحتی مقامات ہیں اس کے علاوہ سلجوکی اور عثمانی ادوار سے وابستہ قبرستان بھی یہاں کے قابل سیر مقامات میں شمار ہوتے ہیں۔ شہر سے پینسٹھ کلومیٹر دور بورا بے نامی جھیل کے ارد گرد شاہ بلوط کے گھنے درخت ہیں کہ جہاں انسان پکنک منانے اور سستانے کےلیے آتے ہیں۔
اماسیا میں تاریخی عمارتیں بھی کم نہیں یہاں کا قلعہ اور اس کے آس پاس موجود پرانی قبریں ، ایزینے نامی سرائے ، بدستان اور پرانا حمام کافی مقبول تاریخی عمارتیں ہیں۔
اماسیا کا عجائب خانہ ،ہزار حویلی اور الپ اسلان کا عجائب خانہ یہاں کے اہم ترین مقامات ہیں ۔ عثمانی دور میں تعمیر کردہ ہزار حویلی شہر کے مرکز میں واقع حاتونیہ محلے میں واقع ہے کہ جسے انیسویں صدی میں حسن طلعت آفندی کی طرف سے تعمیر کروایا گیا تھا۔ ان کی بیٹی ہزیران خانم کے اس حویلی میں طویل عرصے قیام کی وجہ سے اسے ان کا نام دیا گیا ہے۔ روایتی عثمانی طرز تعمیر کی حامل یہ حویلی سن انیس سو چوراسی میں تاریخی مقام کا درجہ حاصل کر گئی ۔


اماسیا میں کثیر تعداد میں مساجد، مدرسے ،گنبد اور مزار موجود ہیں کہ جن کے درمیان مینار والی مسجد، کاپی آغا مدرسہ ،گوموشلو مسجد ،بایزید جامع مسجد ،فتحیہ مسجد، گوک مدرسہ اور مسجد ،خلیلیہ مدرسہ اور خلیفہ غازی کا گنبد قابل ذکر ہیں۔
خلیفہ غازی کا گنبد دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ جس میں کافی تاریخی پتھروں کا استعمال کیا گیا ہے ۔
حالیہ عرصے میں خاص طور سے مقامی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا شہر توکات اپنی ثقافت ، سرسبز و شادابی اور طبی سیاحت کے حوالے سے کافی مشہور ہے ۔
اناطولیہ میں دانشمند ریاست کی آباد کاری کا حامل توکات اپنی تاریخی عمارتوں کی وجہ سے شعبہ سیاحت میں کافی اہم ہے ۔توکات میں اس ریاستی دور میں تعمیر کردہ مدرسے توکات اور اس کے قریب واقع نیکسار میں موجود ہیں۔ توکات میں واقع یاعی باشی مدرسہ سن گیارہ سو باون میں امیر نظام الدین یاعی باشی نے تعمیر کروایا تھا ۔
اناطولیہ میں تعمیر کردہ دوسرا گنبد توکات کی تحصیل نیکسار میں واقع ہے کہ جس کے اطراف میں قبریں بھِی موجود ہیں۔ ان دونوں گنبدوں کی آرائش سیاحوں کو اپنی جانب مائل کرتی ہے کہ جنہیں ملک غازی نے تیرہویں صدی کے دوران تعمیر کروایا تھا جس میں لال اینٹوں کا بخوبی استعمال کیا گیاہے ۔
اماسیا اور توکات کے پکوانوں کا چرچا بھی کافی خوب ہے۔اماسیا کے پراٹھے ، بھری ہوئی مرچیاں ، قدائف اور دیگر کھانے لذیذ ہیں جبکہ توکات کے کباب اور انگوروں سمیت شہتوت کا شیرہ بھی یہاں کی سوغاتوں میں شمار ہوتا ہیں۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں