داعش ،مغربی دنیا اور ترکی کا کردار

داعش ،مغربی دنیا اور ترکی کا کردار

166755
داعش ،مغربی دنیا اور ترکی کا کردار

عالمِ اسلام دوبارہ سے ایک جنگ و جدل کے دور سے آمنے سامنے نظر آرہا ہے ۔ شام اور عراق میں اچانک سے ابھرتے ہوئے فوجی طاقت کو زیر کرنے کے بعد شام اور عراقی علاقوں کی پچیس ملین آبادی پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی دھن میں مگن دولت اسلامیہ نامی تنظیم نے ایک بار پھر امریکہ کو مشرق وسطی میں داخل ہونے کا موقع فراہم کیا ہے جس کے نتیجے میں امریکی س صدر نے عراق کو دوبارہ سے جنگ کی آگ میں جھونکنے کےلیے اپنی فوجیں اتار دی ہیں۔ پہلی خلیجی جنگ یعنی سن 1991 میں سابق صدر جارج بش کے والد اور سن 2003 میں ان کے فرزندِ خاص بش دوئم نے عراق پر دھاوا بولنے کا فرمان جاری کیا تھا اسی طرح امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر براک اوباما نے بھی اسی روش کو اپناتے ہوئے عراق کو تیسری جنگ میں جھونک دیا ہے۔ یہ علاقہ اسی سیاسی کشمکش کی وجہ سے سو سالہ عرصے کے دوران متعدد بار جھڑپوں کا شکار رہا ہے کہ جس میں ہم اس بات کو جاننے کی کوشش میں ہیں کہ آیا ترکی کا اس ساری صورت حال میں کردار کیسا رہا ہے ؟
مغربی دنیا اپنے سیاسی و معاشی بحرانوں کے باعث ماضی کی طاقت اور دبدبہ کھو دینے کے باوجود تاحال دنیا میں جدید سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت اپنی پیداواری استعداد اور عالمی سیاسی نظام میں اپنا سکہ منوا رہا ہے یا اس کی کوشش کر رہا ہے ۔ بڑھنے والے ممالک چین،بھارت،برازیل اور ترکی جیسے ممالک تاحال مغرب سے ٹکر لینے کی حالت میں نہیں ہیں جس کے بر عکس روس اپنے پرانے تشخص اور گیس اور تیل کی بدولت مغرب کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی جسارت رکھتا ہے۔ روس میں خلائی ٹیکنالوجی اور جوہری اسلحے کے علاوہ مغربی دنیا سے مقابلہ کرنے کےلیے جدید سائنسی ٹیکنالوجی پر مبنی کسی صنعت کا فقدان ہے اسی وجہ سے مغربی دنیا تاحال اپنی معاشرتی اقدار اور تہذیب و تمدن پر غرور کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں دوسرے الفاظ میں مغربی ممالک اپنی نام نہاد جدید تہذیب کا اثر دنیا کے دیگر ممالک پر تھوپنے کا عمل بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
خاص کر امریکہ کے حوالے سے دنیا پر نظر ڈالتے ہوئے سرد جنگ میں اپنی کامیابی کا نشہ تاحال اس کے سر پر طاری نظر آتا ہے ۔ گیارہ ستمبر کے واقعات کو امریکی سامراج نے خود کےلیے ایک موقع سمجھا ۔ امریکہ کا ماننا ہے کہ عراق اور افغانستان میں اس کی شکست کے پس پردہ فوجی اور سیاسی طاقت کا خاطر خواہ استعمال نہ کرنا ہے۔ مثال کے طور پر عراق اور شام کی سر زمین آج دولت اسلامیہ کے ہاتھوں ایک کھلونا بنی ہوئی ہے کہ جس کی اصل وجہ امریکی انتظامیہ عراق سے قبل از وقت اپنے انخلا کو قرار دے رہی ہے۔چنانچہ امریکی سامراج اپنی شکست قبول کرنے کے بجائے دیگر عالمی طاقتوں کے خلاف اپنی آواز اور نظریات کا اظہار کرنے والی طاقتوں کے خلاف نئی حکمت عملی تیار کرتےہوئے بہیمانہ انداز میں ان طاقتوں کا خاتمہ کرنے میں مصروف نظر آتی ہے۔
داعش جیو پولیٹک سیناریو کا ایک حصہ ہے
یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں اسوقت سلطنت عثمانیہ کے آخری دور کیطرح زوال اوررجعت کے عمل کو اچھی طرح چلانے کی حکمت عملیوں اور دولت ابدی کی حکمت عملی کا مقابلہ ہو رہا ہے ۔صدر باراک اوباما پہلی اور ڈیموکریٹس اور نیو ۔کون دوسری حکمت عملی کی نمائندگی کر رہے ہیں ۔صدر اوباما کیطرف سے جنگ شروع کرنے اور طاقت کے استعمال سے گریز کرنے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔
جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے باوجود امریکہ کا داعش کیخلاف رضاکار اتحادی قوت تشکیل دیتے ہوئے داعش پر بمباری کروانے کامقصد صدر اوباما پر امریکن دائیں بازو کی حزب اختلاف کیطرف امریکی قوت اور مفادات کا پوری طرح تحفظ نہ کر سکنے کی نکتہ چینیوں کو دور کروانا ہے ۔ خطرہ مول لینے کے بجائے خطرات سے دور رہنے کی پالیسی اختیار کرنے والے صدر اوباما نے یوکرین میں روس جیسی سپر طاقت سے ٹکر لینے کے بجائے داعش جس سے تمام ممالک بے چینی محسوس کر رہے ہیں کیخلاف جنگ کرنے کو ترجیح دی ہے ۔ انھوں نے مشترکہ تہذیب کو دہشت گردوں سے تحفط دینے کے لیے یہ اقدام اٹھایا ہے ۔قدیم زمانے میں مغربی ممالک القدس کو تحفظ دینے کے بہانے کیساتھ مشرقی ممالک کیساتھ جنگیں کرتے تھے مگر ان کا اصل مقصد مشرق کے قیمتی ذخائر کو اپنے کنٹرول میں لینا تاگ ۔ان کی اس پالیسی میں اب بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔بظاہر وہ دہشت گرد تنظیم داعش کیخلاف جدو جہد کر رہے ہیں مگر اصل ہدف اپنے جیو پولیٹک مفادات ہیں ۔
داعش کا مسئلہ بھی ایک جیو پولیٹک مسئلہ ہے ۔اس موضوع پر بحث نہیں کی گئی ہے کہ یہ تنظیم کس ملک کی خدمت کر رہی ہے ۔سب سے بڑھ کر یہ کہ کوئی بھی اس بات کا تجسس نہیں رکھتا ہے کہ مشرق وسطی میں ابھرنے والی ہر تنظیم کے بنیادی ایجنڈے کا تعلق اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے سے متعلق ہوتا تا مگر داعش نے غزہ کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے ۔ موصل پر قبضہ کرنے کے بعد داعش نے بغداد کیطرف پیش قدمی کرنے کے بجائے
شمال میں کردوں کے علاقے کا رخ کیا ۔وہ شام میں اسد انتطامیہ کی مخالفت کرنے کے بجائے آزاد شامی فوج اور پی واے ڈی کے زیر کنٹرول علاقوں پر حملے کر رہی ہے ۔کیا اس کا مقصد صرف پٹرول کے ذخائر کو اپنے قبضے میں لینا ہے یا علاقے کے تمام عناصر کو امریکہ کی امداد کا محتاج بنانا ہے ؟ کیا اسد انتظامیہ کی کیمیاوی ہتھیاروں اور بیرل بموں کے استعمال کی پالیسی اور عوام کو فاقہ کشی کا شکار کرنے اور قتل عام کی پالیسی وحشیانہ قدم نہیں ہے ۔ ان حالات میں ہمیں علاقے کی صورتحال کی وجہ کو گہرائیوں میں جا کر جاننے کی ضرورت ہے ۔
کھیل کو بگاڑنے والا ملک ترکی:
ترکی ایک انتہائی دانشمندانہ اور عقلمندانہ پالیسی کو اپنائے ہوئے ہے ۔وہ مغربی ممالک کی چالوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے حقیقت کو منظر عام پر لا رہا ہے اور عالمی برادری کو ان چالو سے آگاہ کرتے ہوئے انھیں ناکام بنا رہا ہے ۔1990 میں شروع ہونے والا جیو پولیٹک نظریہ دراصل تہذیبوں کے مابین جھڑپ تاب ۔ترکی نے اس نظریے کیخلاف تہذیبوں کے مابین اتحاد کا منصوبہ پیش کیا ۔ ترکی کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے خارجہ پالیسی کیساتھ یورپی یونین کی رکنیت کو اہم پالیسیوں کیساتھ یورپ کے تمام مفروضوں کو غلط ثابت کر دیا ہے ۔اس نے یورپی ممالک کو یورپی یونین کی مغربی تہذیب کیطرف سے فروغ دئیے جانے والے جاسں شمول اصولوں پر مبنی مشترکہ قانونی اتحاد منصوبہ ہونے کے دعووں کو ثبوت کیساتھ سامنے لانے کی پالیسی کیساتھ مشکل میں ڈال دیا ۔ ترکی بہار عرب کے عمل ،شام کے بحران اور مصر کے فوجی انقلاب کے دوران جمہوری اصولوں سے وابستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نام نہاد جمہوری اور جدید دنیا کی متضاد اور غیر متوازن پالیسی کو سامنے لایا گیاہے ۔


اب جو نیا سینریو پیش کیا جا رہا ہے وہ کچھ یوں ہے ۔ مغرب نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ تہذیبوں کے تصادم میں علاقائی زبانوں یا بولیوں کی وجہ سے متعلقہ اقوام خود ہی مشکل میں مبتلا ہو جائیں گی۔ اس وجہ سے مغرب اور خاص طور پر متحدہ امریکہ گیارہ ستمبر کے حملوں سے کافی حد تک سبق سیکھ چکے ہیں اور عالم اسلام کے جیو پولیٹیک مفادات کے تحفظ کے لیے نئی اسٹریٹیجی وضع کر چکے ہیں۔ نئے پراجیکٹ کا نام " تہذیبوں کے درمیان اندرونی خلفشار اور انتشار پر مشتمل اسٹریٹیجی ہے ۔" یہاں پر مراد اسلامی تہذیب میں موجود خامیوں کا پتہ چلانا اور ان کے درمیان انتشار کو ہوا دینا اور جھڑپوں میں اضافہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے آپس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا اور مغرب کے کھیل کا حصہ بننے پر مجبور کرنا ہے۔ حالیہ چند سالوں میں عالم اسلام کو اس نئے سینریو میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف مسلمانوں کا استعمال کے زیر عنوان اس پالیسی میں مسلمانوں کے درمیان انتشار اور خاص طور پر فرقہ واریت کو ہوا دینا اور اس بحث و مباحثے میں تیزی پیدا کرنا ہے۔ ان کا مقصد شعیہ، سنی ، وہابی ازم اور تصوف پر یقین رکھنے والے مسلمانوں کو آپس میں لڑو انا ہے اور اس طرح مسلمانوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنانے کا ہدف حاصل کرنا ہے۔ ترکی میں بھی گزشتہ ایک سال کے دوران حکومت اور گیولن جماعت کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کو بھی اسی نکتہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ القا عدہ تنظیم کے ایک ونگ کی حیثیت رکھنے والے دہشت گرد تنظیم داعش کے شام اور عراق میں جان بوجھ کر راستوں کو ہموار کرنا اور ان کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرنا اور اب انسانیت کو بچانے کے نام پر داعش دہشت گرد تنظیم کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔ یعنی جتنا زیادہ خون بہایا جائے گا اتنے ہی بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل ہو سکے گی ۔
یہاں پر ترکی کا رویہ اور پالیسی بڑی کلیدی اہمیت کی حامل ہے اور ترکی اس وقت تک مغرب کے اس کھیل کو بگاڑنے میں کامیاب رہا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ترکی کو شروع دن ہی سے شام کی خانہ جنگی میں دھکیلنے کی کوشش کی جاتی رہی ہیں۔ مقصد ترکی میں فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہوئے شیعہ سنی فرقوں کے درمیان جھڑپوں کو شروع کرواتے ہوئے طویل عرصے تک اس جنگ کو جاری رکھنا ہے۔ ترکی نے شروع دن ہی سے اس سینریو کے تمام پہلووں کا جائزہ لینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور اب تک اپنے آپ کو اس سینریو سے دور رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور اس نے تمام مشکلات کے باوجود ڈیڑھ ملین شامی باشندوں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے اور خود شام کی سرحدوں میں داخل ہونے سے بہت دور رہا ہے اور اسے شام کی خانہ جنگی میں دھکیلنے کی جو کوشش کی گئی ہے اس کے خلاف اس نے اپنی مزاحمت کو جاری رکھا ہوا ہے اور یہ مزاحمت مغرب کی خود داعش تنظیم کے خلاف براہ راست جنگ میں شامل ہونے تک جاری ہے۔ اس سے قبل داعش جسے ایک اندرونی خلفشار کو ہوا دینے کے مقصد کے لیے تشکیل دیا گیا تھا اب اپنی اس پالیسی سے ہٹ کر پوری دنیا کے لیے خطرے کا باعث بننا شروع ہوگئی ہے اور اس لیے اب پوری دنیا کو اس کے خلاف جدو جہد شروع کرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ ترکی نے مغرب کی جانب سے شروع کی جانے والی اس جدو جہد میں اپنا ایک خاص مقام حاصل کرلیا ہے۔ اس لیے ترکی کی قومی اسمبلی میں منظور کیا جانے والا میمورنڈم اس نکتہ نظر سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ترکی علاقے میں اس خانہ جنگی کو ختم کرنے کے درپے ہے کیونکہ وہ کسی صورت بھی اس بحران کو طول دینا نہیں چاہتا ہے۔ اسی لیے ترکی نے نئی کوالیشن میں جگہ حاصل کرتے ہوئے پوری دنیا کو اپنے مقاصد سے آگاہ کردیا ہے اور ان کو بتا دیا ہے کہ اس جدو جہد کو صرف داعش دہشت گرد تنظیم تک ہی محدود نہیں رکھا جانا چاہیے بلکہ اصلی ہدف شام سمیت علاقے کے تمام ممالک کے لیے ہشت گرد تنظیم داعش کی طرح کی تنظیموں کو پروان چڑھنے سے روکنا اور علاقے کے استحکام کو نقصان پہنچانے والی فضا کا قلع قمع کرنا ہے۔


۔

 



ٹیگز:

متعللقہ خبریں