ترکی اور تعلیم - 42

تھریس یا تراکیہ یونیورسٹی۔ تھریس یا ترکی زبان میں تراکیہ کے نام سےیاد کیے جانے والا یہ علاقہ براعظم یورپ میں واقع ہے ۔ اس علاقے کے یہ نام وسطی ایشیا سے ہجرت کرتے ہوئے آباد ہونے والے تھریس یا تراک باشندوں کی وجہ سے دیا گیا تھا

164781
ترکی اور تعلیم - 42

"پیسے بھوک تو مٹاسکتے ہیں لیکن ناامیدی کو نہیں، کھانا پیٹ کو تو بھر سکتا ہے لیکن روح کو ہرگز نہیں"
جی ہاں سامعین ہم نے اپنے پروگرام کا آغاز آئر لینڈ سے تعلق رکھنے والی مشہور ادبی شخصیت جارج برنارڈ شاہ کے قول سے کیا ہے۔ اپنی روح کی آبیاری کرنے کے لیے ہم نےآپ کے ساتھ ہی اس سفر کا آغاز کیا ہے۔
سامعین آج ہم آپ کو ترکی کے ایک مختلف علاقے تھریس لیے چلتے ہیں جہاں آپ کو تھریس یونیورسٹی کے بارے میں معلومات فراہم کریں گے لیکن اس سے قبل ہم آپ کو ایدرنے جہاں پر یہ یونیورسٹی واقع ہے وہاں لیے چلتے ہیں تاکہ اپ کو اس تاریخی شہر کے بارے میں معلومات بھی فراہم کرسکیں۔
تھریس یا ترکی زبان میں تراکیہ کے نام سےیاد کیے جانے والا یہ علاقہ براعظم یورپ میں واقع ہے ۔ اس علاقے کے یہ نام وسطی ایشیا سے ہجرت کرتے ہوئے آباد ہونے والے تھریس یا تراک باشندوں کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ اس لیے تھریس یا تراکیہ یونیورسٹی جو اس علاقے میں قائم ہے کو یہ نام دیا گیا ہے۔ ایدرنے اس علاقے کا بہت اہم شہر ہے۔
ایدر نے کی تاریخ قدیم دور تک پھیلی ہوئی ہے اور اسے تاریخ کے مختلف ادوار میں بڑا اہم مقام حاصل رہا ہے۔ تھریس یا تراک کے بعد اسکندر اعظم نے اس علاقے کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیا۔ بعد میں یہ علاقہ سلطنتِ روم کی حاکمیت میں چلا گیا اور یہ سرزمین سن 395 میں سلطنتِ روم کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کے بعد مشرقی سلطتِ روم میں شامل کرلیا گیا ۔
سن 1361 میں یہ شہر عثمانی سلطنت کا پایہ تخت بنالیا گیا اور سن 1453 میں استنبول کی فتح تک یعنی بانوے سال سلطنتِ عثمانیہ کے پایہ تخت کے طور پر خدمات فراہم کرتا رہا۔ اس بانوے سالہ دور میں اس شہر کو بڑی شہرت حاصل ہوئی ۔ یہ شہر سترہویں صدی تک دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں شمار ہوتا تھا اور اسے سلطتِ عثمانیہ کے تعلیمی مرکز کی بھی حیثیت حاصل تھی۔
اس شہر کو اپنی شناخت کروانے کا موقع سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں ملا ۔ ایدرنے شہر ثقافتی مراز میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور یہاں پر بڑی تعداد میں ترکی کے ثقافتی شاہکار موجود ہیں۔ یہاں پر مساجد، پل، تاریخی مکانات قدیم دور خاص طور پر عثمانی فن ِ معماری کو اجاگر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں پر عثمانی دور کے عظیم معمار سینان نے اپنے تاریخی شاہکار " سلیمیہ مسجد" کا پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔
ایدرنے شہر ہمیشہ ہی ایک ثقافتی مرکز کی حِثیت سے اپنی خدمات فراہم کرتا رہا ہے۔ اس شہر میں فنِ معماری کو خاص طور پر بڑی اہمیت دی گئی اور بڑی تعداد میں یہاں پر فنی شاہکاروں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔ یہاں پر قائم کیے جانے والے مدرسوں میں مختلف موضوعات پر بحث و مباحثہ بھی دیکھا گیا ہے جبکہ انہیں مدرسوں میں پہلی بار طب کی تعلیم بھی دی جانے لگی تھی۔
موجودہ دور میں ایدرنے شہر ترکی کے یورپ کی جانب کھلنے والے دروازے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایدرنے شہر یونان سے 7 کلو میٹر اور بلغا ریہ سے 17 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
ایدرنے شہر کے بارے میں مختصر سی معلومات فراہم کرنے کے بعد اب ہم اس شہر میں واقع تھریس یونیورسٹی لیے چلتے ہیں جہاں پر اس کے طلبا اور خاص طور پر غیر ملکی طلبا کو فراہم کی جانے والی سہولتوں کے بارے میں آگاہی فراہم کریں گے۔
تھریس یاتراکیہ یونیورسٹی جو کہ بلقانی کیمپس میں واقع ہے میں ہم نے سب سے پہلے یونیورسٹی کے ریکٹر پروفیسر ڈاکٹر ینیر یوروک سے ملاقات کرتے ہوئے اپنی بات چیت کا آغاز کیا۔ ہم نے ان سے ملاقات کرنے کا مقصد غیر ملکی طلبا کو دی جانے والی سہولتوں کے بار ے پوچھا تو انہوں نے ہمارے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ :
ہم ترکی کے یورپ کی جانب کھلنے والے دروازے کی حیثیت رکھنے والے اس شہر میں میں ہم کئِ سالوں سے غیر ملکی طلبا کو تعلیم فراہم کررہے ہیں اور ان کو ہر طرح کی سہولتیں فراہم کررہے ہیں ج سے وہ اپنے آپو کو اپنے گحڑ پر ہی محسوس کرتے ہیں۔
یہ یونیورسٹی سن 1982 میں قائم کی گئی اور اس وقت سے اب تک یہ یونیورسٹی اپنی مختلف سرگرمیوں کے ذریعے ان کا کا خصوصی خیال رکھے ہوئے ہے۔ ان سرگرمیوں میں سے سب اہم پروگرام ثقافتی سنگم میں بلغاریہ اور ترکی کا بین الاقوامی ادبی اور تاریخی سمینار ہے۔
ایدرنے کی میزبانی میں ہونے والے اس بین الاقوامی سمینار کے ساتھ ساتھ ان غیر ملکی طلبا کو اہم آہنگی کے ساتھ اپنے تعلیمی سال کو جاری رکھنا بھی ہمارے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ہماری یونیورسٹی میں تعلیم حاسل کرنے والے غیر ملکی طلبا کی زندگیوں کو آسان بنانے اور ان میں تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ ابھارنے کے لیے اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ ہم غیر ملکی طلبا کے ملکی طلبا کے ساتھ گھل مل جانے کی بھی فضا قائم کرنے کی حتی الوسع کوششیں صرف کررہے ہیں۔ ہم ان غیر ملکی طلبا کی خدمت کے لیے ان کو آفس بھی دے رہے ہیں تاکہ یہ غیر ملکی طلبا ایک جگہ جمع ہو کر آپس میں اور ترک باشندوں کے ساتھ اپنی محبت کو بڑھا سکیں۔
یہ غیر ملکی طلبا بھی ان تمام سہولتوں سے استفادہ کرنے کے لیے ترکی تشریف لا ئے ہیں۔ اس وقت ہماری یونیورسٹی میں 58 مختلف ممالک کے 1801 طلبا موجود ہیں۔ ان ممالک میں سے زایدہ تر طلبا بلقان کے علاقے سے تشریف لائے ہیں۔

 

 



ٹیگز:

متعللقہ خبریں