عالمی ایجنڈا ۔ 93

152266
عالمی ایجنڈا ۔ 93


عالمی پالیسی کو مختلف ادوار میں مختلف عوامل رخ دیتے چلے آئے ہیں ۔انیسویں صدی قوم پرستی اور روشن خیالی کا دور ، 20 ویں صدی کا پہلا نصف آمرانہ اور فاشسٹ دور جبکہ دوسرا نصف دور سرد جنگ اور نظریات کے موثر ہونے والا دور تھا ۔حالیہ دور میں عالمی پالیسی پر اثر انداز ہونے والی تحریکوں کا تعلق دہشت گرد تنظیموں سے ہے ۔ موجودہ دور میں پی کے کے ،ای آر ا ے، ایٹا ، القائدہ ، بوکو حرام ، النصرا اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کیخلاف جدوجہد شروع ہو گئی ہے ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ 11 ستمبر 2001 میں نیو یارک میں ہونے والے حملے کے بعد عالمی دہشت گردی کیخلاف جدوجہد کا دور شروع ہوا ۔یہ نظریہ حاوی تھا کہ صدر بش کیطرف سے شروع کی جانے والی یہ
جدو جہد صدر باراک اوباما کے دور میں اختتام پذیر ہو گی اور ایک نئے دور کا آغاز ہو جائے گا ۔در حقیقت صدر اوباما نے اس سلسلے میں اہم قدم بھی اٹھائے ہیں لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ داعش کے منظر عام پر آنے کے بعد صدر اوباما نے بھی اپنا رخ 11 ستمبر کے پیرا میٹر کی طرف موڑ لیا ہے ۔فرق صرف یہ ہے کہ صدر اوباما صدر بش کے برعکس کئی ممالک کیساتھ اتحاد قائم کرتے ہوئے دہشت گردی کیخلاف جدو جہد کر رہے ہیں ۔صدر اوباما اور اتحادی ممالک کو داعش کیخلاف کامیابی حاصل کرنے کے لیے داعش کو منظر عام پر لانے والی وجوہات کو صحیح طریقے سے سمجھتے ہوئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس موضوع پر مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا جائزہ
سب سے پہلے اس بات کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ داعش کا دین اسلام یا مسلمان برادری سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کو اسلامی نظریات کیساتھ سمجھنے ،ان کی وضاحت کرنےکی کوشش کرنا نہ مذہبی ثقافت اور نہ ہی تاریخی تجربات کے حقائق کے مطابق ہے ۔داعش نے اپنے لیے دولت اسلامیہ کا جو نام منتخب کیا ہے اسے پروپگنڈا کہا جا سکتا ہے ۔ عقل سلیم کا مالک کوئی بھی مسلمان اس غلطی کو قبول نہیں کر سکتا۔مختصراً یہ کہ داعش اور اس سے ملتی جلتی دہشت گرد تنظیموں کو دین اسلام اور مسلمانوں کیساتھ منسلک کرنا درست نہیں ہے لیکن اس حقیقت کو قبول کرنے کی ضرورت ہے کہ داعش اور اسلام کا نام استعمال کرنے والی تمام تنظیمیں اسلامی ممالک سے ہی ابھری ہیں ۔ جس طرح ای ٹی اے اور ایرا جیسی دہشت گر دتنظیمیں مغربی اور عیسائی ممالک سے ابھری ہیں اسی طرح داعش جیسی تنظیموں نے مشرق اور اسلامی ممالک میں جنم لیا ہے ۔اس نظریے کا صحیح طریقے سے جائزہ لینے سے مذہبوں اور ثقافتوں کے بارے میں غلط جائزہ لینے کی روک تھام کرنے کیساتھ ساتھ مسائل کا پائدار حل تلاش کرنے میں مدد مل سکے گی ۔
دہشت گرد تنظیموں کو معرض وجود میں لانے والی وجوہات کا تعلق مشرق وسطی میں جاری گلوبل اور علاقائی جیو پولیٹیک رقابت اور جھڑپوں ،ان جھڑپوں کے نتیجے میں ممالک میں پیدا ہونے والے انتطامیہ کے فقدان ،اسلامی ممالک میں پائے جانے والے سیاسی ،جمہوری، اقتصادی اور رفاح سے متعلق مسائل اور دین ِ اسلام اور ثقافتی تعلیم کے میدان میں موجود مسائل سے ہے ۔ان مسائل کی مختصراً اس طرح وضاحت کی جا سکتی ہے ۔مشرق وسطی کے علاقے میں توانائی کے وسائل اور سٹریٹیجک اہمیت کیوجہ سے سال ہا سال سے جھڑپیں ہو رہی ہیں ۔یہ عمل سرد جنگ کے دور میں مشرقی اور مغربی بلاک کی شکل میں جاری رہا ۔1979 میں ایران میں آنے والے انقلاب کے بعد اس کشیدگی نے ایران اور عالم مغرب اور امریکہ کے درمیان کشمکش کی شکل اختیار کر لی ۔ 11 ستمبر کے بعد امریکہ کی افغانستان اور عراق میں مداخلت کے بعد اس عمل نے عالمی دہشت گردی کیخلاف جدوجہد کی شکل اختیار کر لی ۔اس جدوجہد میں بہار عرب کی ناکامی اور شام میں انتظامیہ کے فقدان کیوجہ سےمزید اضافہ ہوا ۔ عراق میں جنم لینے والی داعش تنظیم کا شام میں ابھرنے سے دراصل دہشت گرد تنظیموں کے وجود میں آنے کے بارے میں اشارے ملتے ہیں ۔
داعش اور اس جیسی تنظیموں کے وجود میں آنے کی دوسری اہم وجہ ان ممالک میں پائے جانے والے سلامتی،اقتصادی اور رفاح سے متعلق مسائل سے ہے ۔بے روزگاری ،غربت ،بنیادی انسانی حقوق سے متعلق مسائل اور اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرنے کیوجہ سے نوجوانوں یا انسانوں کو باسانی ورغلایا جا سکتا ہے ۔مسلمانوں یا عیسائی دہشت گردوں کی زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت کے اقتصادی مشکلات کو مذہبی اور نظریاتی ڈکٹرین کیساتھ ملاتے ہوئے غلط طریقے کیساتھ پیش کیا گیا ہے ۔
اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں پر بنیادی عنصر مذہبی نظریات اور تعلیم سے متعلق مسائل ہیں ۔علماء دین اور علماء الہیات نے ہر موقع پر اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلام کو دہشت گردی کا آلہ کار نہیں بنایا جا سکتا ۔داعش کے دہشت گردوں کیطرف سے دیگر فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں یا غیر مسلموں کا سر قلم کرنا اسلام کے اصولوں کے سخت خلاف ہے ۔اگر صورتحال یہ ہے تو دہشت گرد تنظیم داعش کے مجاہد کہلوانے والےکس طرح فتوی دیتے ہیں ۔ اس سوال کا ایک ہی جواب دیا جا سکتا ہے کہ اگر داعش جیسی تنظیمیں اسلام کو آلہ کا رنہیں بناتی ہیں تو پھر وہ اسلام کو غلط سمجھتی ہیں اور اس پر غلط عمل درآمد کرتی ہیں ۔بعض حلقے داعش کو ساتویں صدی کی خارجی ازم تحریکوں کا جدید ورژن قرار دے رہے ہیں لیکن یہ تاریخی لحاظ سے جائزہ ہے۔یہ قران اور حضرت محمد کی تعلیمات سے مماثلت نہیں رکھتا ہے ۔نتیجے کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کیساتھ مخلصانہ طریقے سے جدوجہد کرنی ہے تو تنظیم کے معرض وجود میں آنے کی وجوہات کی طرف لازمی توجہ دینے اور ان کے خاتمے کے لیے کوششیں صرف کرنے کی ضرورت ہے۔

 

 

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں