دین اور معاشرہ ۔ 34

دین اور خاندان کے درمیان تعلق

108489
دین اور معاشرہ ۔ 34

آج کی قسط میں دین اور کنبے کے تعلق پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائیگی۔
اہل ِ خانہ کے معاملےنے دنیا کے قیام سے آج تک اپنی اہمیت کو کبھی نا کھویا حتی عصر حاضر میں یہ کہیں زیادہ توجہ کا حامل ایک موضوع ہے۔ اگر سیدھی منطق کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ دو مخالف جنسوں کے حامل بالغان کے قانونی اور رسمی تعلق کے مطابق قائم کردہ گھرانے کا دوسرا نام خاندان ہے۔ تا ہم یہ حیاتیاتی، نفسیاتی اور سماجی عوامل کے حامل ایک ادارے کی بھی حیثیت رکھتا ہے۔کنبہ اس خصوصیت کے ساتھ تولید، تحفظ اور رہائش، محبت کرنے، محبت ہونے اور محبت کو باٹنے ، انحصار و غیر انحصار ، کسی سےتعلق رکھنے ، حیثیت و قدر ، اعتماد و خود احساسی کی طرح کے عوامل کو اپنے ڈھانچے کے اندر سماتا ہے۔ اسی طرح یہ بچوں کی دیکھ بھال و تعلیم، سماجی رسم و رواج اور مثالی نظریات، حاصل کردہ معلومات اورمال و ملک کو آئندہ کی نسلوں تک پہنچانے کی طرح کے متعدد عوامل کو عملی جامہ پہنانے کا حامل ایک معاملہ ہے۔
کنبے کے افراد کے گھر کی چار دیواری میں ادا کردہ کردار اور ذمہ داریاں و فرائض ایک معاشرے سے دوسرے معاشرے میں یا پھر ایک ہی معاشرے کے مختلف طبقوں میں ایک دوسرے سے مختلف نوعیت کے ہو سکتے ہیں۔تا ہم عمومی طور پر خاندان، بچوں کی تعلیم و تربیت، معاشرے کی ثقافتی اقدار سے آشنائی کرواتے ہوئے ان کو سماجی رسم و رواج کی تربیت دیتا ہے اور معاشرے کے ساتھ یکسانیت قائم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ یہ تمام تر عوامل ایک صحت مند سماجی ڈھانچے کے قیام میں نظر انداز نہ کیے جا سکنے والے شعبے ہیں۔ جی ہاں ایک کنبہ اس طرح کے لا تعداد انفرادی اور سماجی فرائض کو پورا کرنے کا حامل ایک ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔
صنعتی انقلاب اور جدید دنیا کے خطرات کا سامنا ہونے کا مشاہدہ ہونے والے کنبے نے انیسویں صدی میں سماجی سوچ و افکار کے ایک اہم موضوع کی حیثیت حاصل کی ہے۔ سماجی علوم کے ماہرین دو بنیادی اسباب کی بنا پر خاندانی معاملات میں دلچسپی لیتے آئے ہیں۔ان میں سے پہلا سبب سماجی ڈھانچے کے اندر ہر فرد کا کسی کنبے کا رکن ہونا، اور اس بنا پر معاشرے کے ہر فرد کے لیے گھر بساناکسی تجربے کو حاصل کرنے کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ دوسرا سبب سماجی تبدیلی کے عمل کےدوران خاندان کے اندر ہونے والی اور پیش آنے والی تبدیلیوں کا کسی متحرک ڈھانچے کا حامل ہونے میں پوشیدہ ہے۔
کسی معاشرے کے بیج خاندان بوتے ہیں۔کسی ملت کے مستقبل کے موضوع پر اقدار کے اعتبار سے خاندانی ڈھانچے کا جائزہ لیتے ہوئے ایک نمایاں سطح کا تخمینہ لگانا ممکن ہے۔ اقدار و ثقافت کسی معاشرے کو معنی اور اہمیت دلانے والے پیمائش کے پیما نے ہیں۔مسلمان معاشرے کی قدر و قیمت کا پیمانہ اسلامیت ہے۔ دین اسلام میں خاندان کو ایک مقدس ادارہ مانا جاتا ہے۔ مسلمان کنبہ اس تقدس کو عظیم ترین ذرائع کے حامل قرآنِ کریم اور سنت کی بدولت حاصل کرتا ہے۔ موجودہ صدی کےا وائل سے ثبوتیت پسندی کا نظریہ اور سوچ نے مسلمانوں کی ثقافت اور تخیل کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زندگی کے تما م تر شعبوں سے دین کو خارج کرنے کی کوششیں کسی مسلمان فرد کی خاندانی زندگی میں وسیع پیمانے کے گھاؤ پیدا ہونے کا موجب بن رہی ہیں۔ اس صورتحال کا علماء کی طرف سے اندازا کیے جانے کے باوجود اس کے حل چارے میں دیگر طرائق کو استعمال کرنے کی کوشش، دوسرے الفاظ میں انسانی فطرت کے منافی طریقہ کار پر عمل درآمد ، زخم کو تندرست کرنے کے بجائے مزید خراب کرتے ہوئے اسے مہلک بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ در پیش مسئلے پر اس قسم کا مؤقف مرض سے نجات پانے کے بر عکس اسے پرانی بیماری بناتے ہوئے اس سے بچنے کے امکانات کو معدوم کر دیتا ہے۔
اس سطح پر دین پر بھاری ذمہ داریا ں عائد ہوتی ہیں۔اس لحاظ سے قرآنی آیات میں کنبے کی بنیاد ہونے والے ازداجی رشتے کو خاصی اہمیت دیے جانے کا ذکر موجود ہے۔ کسی خوشگوار اور خوش آئند مستقبل کے حوالے سے کنبے کے افرادکو علیحدہ علیحدہ ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔خاندان بچوں کا مذہبی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کے ارکان کو دینی علم دینے کے ساتھ ساتھ بیک وقت ایک مذہبی ادارے کی ذمہ داری بھی سونپی جاتی ہے۔ کنبہ اس کے افراد کی عبادت اور مذہبی فرائض کو منظم کرتا ہے۔ کنبے کے بزرگ دینی اقدار اور عادات کو نسل در نسل آگے بڑھاتے چلے آئے ہیں اور فراہم کردہ مذہبی تعلیم پر کنبے کے افراد کے عمل درآمد کرنے یا نہ کرنے کا جائزہ لینے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
اسلامیت میں خاندانی حقوق کی بنیادی خصوصیات پر زوردیتے اس حوالے سے تفصیلی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ہر چیز سے پہلے ازدواجی رشتے کی بنیاد سول اور خود مختار میدان میں ڈالی جانی چاہیے۔شادی کے معاہدے کو کسی مہذب اور متمدن عمل کا درجہ دیے جانے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ شادی کا بندھن عارضی نہیں ہوتا، اس کے مسلسل طور پر جاری رہنے کی ضرورت کی سوچ سُنی اسلام کا بنیادی اصول ہے۔ یہ چیز شادی کو ایک عارضی مفاد کے بجائے طرفین کو دیے جانے والے اعتماد و بھروسے کی بدولت خاندانی ادارے کو تقویت بخشتی ہے۔ آج مثبت نوعیت کے قوانین میں بھی اہمیت کا حامل ایک معاملہ بعض افراد کے ساتھ ازدواجی رشتے کو ابدی طور پر ممنوع قرار دینا ہے تو بعض افراد کے ساتھ شادی کا رشتہ قائم کرنے کو بعض حالات میں ممنوع دیا گیا ہے۔
گو کہ میاں بیوی کے درمیان شادی کے بندھن کے خاتمے کو جائز قرار دیے جانے کے ساتھ ساتھ اس چیز کو نا پسند یدہ صورتحال قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ طلاق پہلی نظر میں محض میاں بیوی اور عائلی افراد سے تعلق رکھنے والا ایک عمل دکھائی دیتا ہے تو درحقیقت یہ سماج اور سماجی زندگی کے ساتھ قریبی تعلق ہونے والا ایک اہم اور نازک معاملہ ہے۔ حالیہ دور میں طلاق کا عمل دنیا بھر میں ہر گزرتے دن طول پکڑتا جا رہا ہے تو مغربی معاشرے میں اس عمل کا واضح طور پر مشاہدہ ہوتا ہے۔ جو کہ ایک توجہ طلب موضوع ہے۔ طلاق جیسے نا پسندیدہ عمل کا موجب بننے والے مختلف سماجی و ثقافتی اور انفرادی معاملات اس موضوع پر بحث چھڑنے کا باعث ہیں۔خاص طور پر جدید اداروں کے منظر عام پر آنا، بدلتی ہوئی اقدار ، تنہائی و آزادی کی طرح کی تبدیلیوں کا ایک اہم مظہر ہے۔ جدید اداروں کا عائلی کردار کو اپنے ہاتھ میں لینا، روایتی ازدواجی تعلقات میں تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے طلاق کے واقعات میں اضافے میں خطرہ عنصر کے طور پر تصور کیا جاتا ہے۔ کنبے کو تحفظ دلانے والی مذہبی اقدار کا کمزور پڑنا اس ضمن میں اہم ترین عنصر ہونے کو عیاں کرتا ہے۔ لہذا جدید معاشرہ کنبے اور کنبے کے اندرونی تعلقات اور معاملات میں کسی سیمنٹ کا کام کرنے والی دینی اقدار کا پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت مند ہے۔

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں