دین اور معاشرہ ۔ 33

دین اسلام کی رو سے اختلاف اور اس کے اسباب پر ایک نظر

103088
دین اور معاشرہ ۔ 33

آج کی قسط میں موضوع اختلاف اور اس کے اسباب پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائیگی۔
خالقِ عظیم نے بنی نو انسانوں کو دیگر خصوصیات کے ساتھ ساتھ قد ، شکل، رنگ و طاقت وغیرہ کے پہلوؤں کے مختلف بنایا ہے۔ اس بنا پر تمام تر جسمانی خصوصیات میں یکسانیت پائے جانے والے کسی دو انسانوں کا ملنا تقریباً نا ممکن ہے۔ انسان جسمانی اور ذہنی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے علاوہ اپنے گرد و نواح کے واقعات سے حاصل کردہ سوچ و تخیل کے اعتبار سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔یہ فطرت کا تقاضا ہے کہ ہر انسان تمام تر معاملات میں ایک جیسی سوچ کا مالک نہیں ہو سکتا۔ خاص طور ہر نظریے کو بیان کرنے والے معاملات فلسفے اور دین کی طرح پیچیدہ ہوتے ہیں تو پھر فکری تضادات کہیں زیادہ نمایاں ماہیت اختیار کر لیتے ہیں۔ اس لحاظ سے انسانوں کے بیچ دینی اور دنیاوی معاملات میں متضاد سوچ و نظریات زیادہ تر فطرت پر انحصار کرتے ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ انسانوں نے تہذیبی راہ پر اٹھائے گئے اقدامات کے دوران ہمیشہ نظریاتی اختلافات کا سامنا کیا ہے تو یہ بے جا نہ ہو گا۔
ہر چیز سے پہلے اسلام نےانسانوں کے بیچ نظریاتی اختلافات کو معقول اور مناسب قرار دیتے ہوئے اسے اعتقاد و فکری آزادی کا ایک فطری نتیجہ قرار دیا ہے۔اس بنا پر اللہ تعالی نے اس چیز کی طاقت ہونے کے باوجود تمام تر انسانوں کو ایمان اور عمل کے اعتبار سے ایک جیسے افکار کی حامل کسی واحد امت کی شکل میں تخلیق نہ دی۔ اگر رب العزت چاہتا تو تمام تر انسانوں کو واحد ملت اور واحد نظریے کا حامل بناتا۔ یعنی مختصراًٍ ا س نے انہیں واحد امت کی شکل نہ دینا چاہی، عوام کو توحید و رسالت کا حکم صادر کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے اختلافات کا امکان بھی چھوڑا۔ تا ہم یہ تضادات جمیت کے ڈھانچے کو بگاڑتے ہوئے معاشروں کو مادی و معنوی لحاظ سے متاثر نہ کرنے کی سطح تک نہ جانے کی صورتحال میں ہمیشہ انسانیت کے مفاد میں نتائج سامنے لائے ہیں۔تمام تر فلسفی تخیل، مذاہب، سماجی اور اقتصادی طور طریقے ہمیشہ اس مختلف نظریے کی پیداوار رہے ہیں۔مفکرین کی طرف سے کسی بھی موضوع پر تخیلی پیداوار میں، ان کے تعلق ہونے والے سماج کی فکری آزادی کےکافی حد تک مؤثر ہونے کا مظاہرہ کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں مفکرین کی دینی، علمی، سماجی، اقتصادی اور بالخصوص سیاسی موضوعات پر آزادانہ طور پر سوچ و تخیل کو بیان کر سکنے کے تعلق رکھنے والے معاشرے کے سماجی ڈھانچے اور فکری حریت کی مفاہمت کے ساتھ قریبی تعلق ہونے کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
انسانوں کے بیچ فکری تضادات کے کئی ا سباب پائے جاتے ہیں۔یہ عناصر، ذاتی فطرت، ذہنی ڈھانچے، سماجی اور سیاسی حلقے، کاروباری دنیا کی طرح کی مختلف چیزوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر اسلامیت کے ابتدائی ادوار کا جائزہ لیا جائے تو اس چیز کا اندازا ہوتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے وحی کی صورت میں اترنے والی معلوما ت کو بڑی توجہ اور دھیان کے ساتھ سکھانے کی کوشش کی تھی۔ اصحابہ کرام بھی مشکلات کا سامنا ہونے والے معاملات اور بعض مسائل کے حل کے لیے حضور ﷺ سے ہی رجوع کرتے تھے۔ اس سبب کی بنا پر رسول اکرم کے باحیات ہونے کے دور میں اصحابہ کرام میں دین سے متعلقہ معاملات میں نظریاتی اختلاف کا شاذو ناذر ہی مشاہدہ ہوا تھا۔
ہمارے پیغمبر کے وصال کے بعد صحابیوں کو پیش آنے والے مسائل کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں ہی تلاش کرنا لازمی تھا۔ اور انہوں نے اکثر اسی چیز پر عمل درآمد کیا تا ہم بعض اوقات ان میں بعض معاملات پر اختلافات بھی پیدا ہوئے تھے۔ کیونکہ یہ صورتحال ان کے انسان ہونے کا نتیجہ ہے۔ ان کے دین اسلام کی سب سے ممتاز شخصیات ہونے کے باوجود ان ادوار میں کئی ایک اختلاف کے بیج بوئے گئے کہ جن کے اثرات آج بھی ہمارے سامنے ہیں۔بعض ادوار میں مسلمانوں نے ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھائے اور خون خرابہ کیا۔ یہ دراصل قرآنِ کریم کے واضح طور پر منع کیے جانے والے اختلافات ہیں۔
حدیثوں میں مسلم امہ کے درمیان اختلافات کو رحمت کے طور پر بیان کرنے والے بعض الفاظ کا بھی وجود ملتا ہے۔تاہم دین مسلمانوں کے درمیان دوری اور علیحدگی کا موقع پیدا کرنے والے معاملات کی ہر گز اجازت نہیں دیتا۔ قرآن مجید مومنوں کے لیے مثالی حیثیت رکھنے کے لیے قدیم اقوام کے اختلافات کے نتیجے میں سامنا کرنے والے عذابوں کا مثالوں کے ساتھ ذکر کرتا ہے۔ اس صورت میں فکری منصوبے کے فکری تضادات کے رحمت کا وسیلہ ثابت ہونے کے نتائج کو ذکر آنے والی قرآنی آیات سے خارج کرنا نا ممکن ہے۔ کیونکہ اس کے بر عکس مسلمانوں کو اتحاد و یکجہتی کی تلقین کرنے والی کئی آیات اور احادیث کا وجود ملتا ہے۔
معاشرو ں میں منظر عام پر آنے والے اختلافات کو دور کرنے کی خاطر عالمین نے بعض اصولوں کا تعین کیا ہے۔ عقیدے سے متعلق موضوعات میں قرآن وسنت کی روشنی میں متضاد نہ ہونے والے عقائدی اختلافات کو جائز قرار دیا گیا ہے۔معاشرتی روح کو زد پہنچانے والے ، توحید کے عقیدے کو متاثر کرنے والے، مسلم امہ کے درمیان پھوٹ پڑنے کا رحجان پائےوالے اختلافات کی قطعی طور پر ممانعت ہے۔ دین اسلام کے عقائد کے بنیادی اصولوں سے تعلق نہ رکھنے والے معاملات کے بارے میں قطعی دلائل نہ پائے جانے والے موضوعات کے بارے میں فکری تضادات کو قدامت پسند ترین سے لیکر نرم مزاج تمام تر اسلامی علماء نے موزوں قرار دیا ہے۔
مختلف ذرائعوں میں فقہ کے حوالے سے معاملات میں اختلافات پیدا ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔1۔مختلف افکار کو پیش کرنے والے افراد کا مفسر کے درجے کا حامل ہونا لازمی ہے۔ 2۔ فکری تضادات کا موضوع بننے والے معاملات کے بارے میں قطعی دلائل نہیں ہونے چاہییں۔3۔ فکری تضادات مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی کو بگاڑتے ہوئے سماجی اختلافات کا موجب نہیں بننے چاہییں۔4۔فکری اختلافات طرفین کی طرف سے تعصب کی ماہیت اختیار کرنے کے حامل نہیں ہونے چاہییں۔دوسرے الفاظ میں اس موضوع پر فکری تضادات ، اتحاد و برابری کی سوچ کے ٹکڑے کرتے ہوئے مساجد، قبلے اور محراب کی طرح کے نازک موضوعات میں تفرق کا سبب نہیں بننے چاہییں۔
اس موضوع کا لب لباب کچھ یوں ہے۔رب العالمین نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔بلا شبہہ انسان کو اشرف قرار دینے والے معاملات میں عقل و ذہن سر فہرست ہیں۔عقل کی بدولت ہر انسان اپنی سوچ کی استعداد کے مطابق ہر موضوع پر سوچ بیچار کرتے ہوئے صحیح راستے کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ عقلی پیداوار ہونے والے افکار زیادہ تر ایک ہی نکتے پر آن ملتے ہیں تو بعض اوقات ان میں تضاد بھی سامنے آتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہر انسان کا کسی ایک سوچ و تخیل پر متفق ہونا نا ممکن ہے۔ اس آزادی کو محض قرآن و سنہ کے بر خلاف نہ ہونے اور اسلامی معاشرے میں نفاق پیدا کرنے کی حد تک نہ ہونے کی صورت میں مناسب قرار دیا گیا ہے۔ دین کے عقل سے ہٹ کر بعض عناصر کے بارے میں خاصکر اعتقاد کے معاملات میں قرآن و سنت سے دوری کو نا پسند کیا جاتا ہے۔ تا ہم جیسا کہ اوپر بھی بیان کیا گیا ہے کہ دینی عقیدے کے حامل نہ ہونے والے معاملات میں فکری تضادات کو کچھ حد تک معقول قرار دیا گیا ہے۔



ٹیگز:

متعللقہ خبریں