ترکی اور پاکستان کے تعلقات پر ایک نظر ۔ 31

ترکی میں خلافت کا دور

84560
ترکی اور پاکستان کے تعلقات پر ایک نظر ۔ 31

علامہ اقبال نے یہ شعر جیسے ترکی کے لیے ہی کہا تھا
ادھر نہ دیکھ اُدھر دیکھ اے جوان عزیز
کہ بلند زور دروں سے ہوا ہے فوارہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال فرمانے کے بعد خلافت کا دور شروع ہواصحابہ اکرام میں حضرت ابو بکر ،حضرت عمر ،حضرت عثمان ،حضرت علی حسن معاویہ اور عبداللہ بن زبیر کے بعد یہ سلسلہ تابعین تبع بنی امیہ اور عباس سے ہوتا ہوا عثمانی ترکوں کی طرف سے خلافت عثمانیہ کے ساتھہ 22 رجب 1924 تک قائم رہا اس عرصے کے دوران مرکز خلافت مدنیہ،کوفہ،دمشق،بغداد اور استنبول یکے بعد دیگرے خلافت کا مرکز رہے۔ لیکن اس عرصے میں اندرونی خلفشار اور بیرونی یلغار کا دور دورہ بھی رہا بدلتے موسم کی خلافت کبھی برائے نام رہی اور کبھی ہارون الرشید جیسے عبقری شخص کی وجہ سے کامیاب رہی خلافت نے ایسا بھی دور دیکھا کہ خلافت سے منسلک مگر اندرونی با اختیار ریاستیں مرکز سے بھی طاقتور ثابت ہوئیں۔ اتا ترک کے 1924 کے الغائی خلافت کے اعلان سے خلافت کا دور ٹوٹ گیا، خلافت کے دور کے خاتمے کے فوراً بعد سعودی عرب کے شاہ عبدالعزیز الا صعود نے عالم اسلام کے رہنماؤں کی ایک بین الاقوامی کانفرنس بلوائی جس میں امت مسلمہ کو مضبوط کرنے کے لیے تنظیم سازی کی گئی، لیکن یہ سلسلہ بھی نہ چل سکا، اس کے بعد شاہ حسن ثانی ،شاہ فیصل ،اور پاکستانی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی کاوش سے او ائی سی کے نام سے مسلم ممالک کی ایک نئی تنظیم کی بنیاد ڈالی گئی۔ لیکن بین الااقومی حلقوں میں اس کی شنوائی نہ ہونے کی وجہ سے اسے او آئی سی کی بجائے اسلامی تنظیم کانفرنس کا نام دیا گیا مگر اس کی حالت ایسی تھی جیسے مریض کی حالت روزافزوں صحت یاب ہونے کی بجائے مزید مرض میں مبتلا ہونے کی ہوتی ہے۔ اس کے بعد ایک اور کوشش بھی کی گئی وہ یہ کہ اسلامی بلاک کی بجائے آج کے جدید دور میں اجتماعی سوچ سے ہٹ کر ہر" ملک اپنا اپنا سوچیں" کی پالیسی پر عمل کریں اور اس سلسلے میں سب سے پہلے پاکستان ،مصر ،اردن کے نام سامنے آئے ۔
اسکندر اعظم جب دنیا کو فتح کرتے ہوئے مشرق و مغرب کو روند چکا تو اس نے اپنے اتالیق ارسطو سے مشورہ کیا کہ سر حدوں میں دوری و درازی نظام حکومت میں خلل پیدا کرتی ہے، ارسطو نے مشورہ دیا کہ آپ قابض علاقوں پر حکمرانی کی فکر نہ کریں بلکہ ان کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں اور ملکوں میں تقسیم کر دیں اور ان کی حدود بندی کریں اور ان کے سربراہوں کا بھی ایک ایسانظام تر تیب دیں کہ ان کا اقتدار میں آنا اور اقتدار سے جانا آپ کے ہاتھوں میں ہی ہو۔ یعنی گورنر سسٹم بنا دیا جائے یوں آپ کو پورے علاقے پر نہیں بلکہ چند افراد پر حکومت کرنی پڑے گی باقی کا نظام آپ کے ماتحت دیکھیں گے۔ لیکن اقتدار کا اعلی منصب اور کُل اختیارات آپ کے پاس ہی ہوں گے، یہاں سے ہی گورنر ،وزیر اعلی ،میئر،کا دور شروع ہواور ارسطو کے مطابق اندرونی جھگڑوں کا باز پرس منتخب نمائندے کریں گے اپنے تمام تر معاملات میں آپ سے براہ راست رجوع کر نے کے پابند ہوں گے پھر جو نقشہ آپ انہیں دیں گے وہ ان ہی پر چلنے کے پابند ہوں گے۔ اسطرح یہ لوگ آپس میں لڑتے رہیں گے آپس میں یہ لوگ ایک دوسرے کے لیے شیر ہوں گے لیکن آپ کے سامنے یہ ہمیشہ بکری بن کر رہیں گے عالم اسلام کے لیئے ہنری کسنجر نے بھی یہی نسخہ آزمایا تھا ترکی ،ایران ،عالم عرب ،افغانستان ،پاکستان ،اور افریقی ملک سب سے پہلے اپنے اپنے ملکی فارمولے میں آگئے ان میں سے کچھ نے تو اس انداز سے کامیابی کے جھنڈے گاڑلیے تھے جس کی بنا پر عالمی بساط والوں کو ان کی کامیابی ہضم نہ ہو سکی اس لیے انہوں نے ترقی کرنے والوں ملکوں میں لاقانونیت ،فرقہ واریت ،تعصب ،لسانیت ،صوبائیت ، کی ایسی بیماریاں لگا دیں جو آج تک قابو میں نہ آسکیں۔ لیکن ترکی نے ثابت قدمی دکھائی انقلاب بھی آیا لیکن جمہوری طریقہ پر عمل کرتے ہوئے ترکی نے ان بیماریوں کو اپنے قریب تک نہ پھٹکنے دیا۔
حالیہ دور میں کردی علاقے کے حالات بھی جان بوجھ کر خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور دنیا میں مسلم ممالک میں جنگ کی سی کیفیت پیدا کر دی گئی ہے۔ اقتصادیات ،تجارت ، اور نظم ضبط میں اس نے تیز ترین ترقی کی کوشش کی اور ترکی نے مشرق اور وسطی یورپ اور دنیا میں عزت و احترام کا مقام حاصل کیا اور 50٪ سے زیادہ ووٹ لے کر غازی پارک بنانے کی کوشش کی جبکہ مخالف میڈیا نے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا لیبرل قوتوں نے اور ترکی کے ابدی دشمنوں نے اسے غنیمت جان کر اسے وزیر اعظم رجب طیب اردوان اور صدر عبداللہ گل کی آپس کی لڑائی قرار دی۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہ تھی کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ وزیر اعظم ایردوان اور صدر گل کی قیادت میں ترکی نے جو ترکی کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی وزیر اعظم طیب ایردوان کی سوچ اور صدر عبداللہ گل کی حمایت نہ ہوتی تو ترکی کبھی کامیابی کا سفر طہ نہ کر پاتا۔ جو لیبرل طاقتیں اور ترکی کے ابدی دشمن ترکی کی ترقی سے جلتے ہیں، وہی ترکی کی مخالفت کی باتیں کرتے ہیں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ترکی کے وزیر اعظم نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غازی پارک کے منصوبے کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا تھا ورنہ ایک اور مسلم ملک میں شورش اور انارکی کا خطرہ تھا۔ ایردوان کے غازی پارک کے فیصلے کے انکار سے ان کی شان میں کوئی کمی نہ آئی بلکہ قدرت نے انہیں اور کئی موقع دیبے اور غازی پارک کی تعمیر کو بھلا کر اگلے پروجیکٹس پر کام کرنا شروع کیا جس سے ان کی عزت و وقار میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا، یہ مثال وزیر اعظم رجب طیب ایردوان پر پوری اترتی ہے کہ ایک در بند تو سو در کھلے ہیں ۔
یہ سمجھہ داری کا تقاضا بھی تھا کیونکہ حکمرانوں کو ضد کی بجائے حکمت عملی سے ہی کام لینا چاہیے اگر معاملہ فہیم ہو اور لیڈر میں لیاقت کا جوہر ہو تو حالات پر قابو پانا مشکل نہیں ہوتا جس کا عملی نمونہ ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوان نے پیش کیا ترکی کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے دل چاہتا کہ جس شعر سے کالم کی ابتدا کی تھی کالم کا اختتام بھی اسی شعر سے کیا جائے
اُدھر نہ دیکھ اِدھر دیکھ اے جوان عزیز
کہ بلند زور دروں سے ہوا ہے فوارہ
محمد ناصر اوپل


ٹیگز:

متعللقہ خبریں