دین اور معاشرہ 28

دین کے مطابق فارغ اوقات کے استعمال پر اہم معلومات

109959
دین اور معاشرہ 28

معاشروں کے اہم مسائل میں سے ایک فارغ اوقات کو کس طرح استعمال میں لائے جانے پر مبنی ہے۔ اس موضوع کے بارے میں علماء مختلف تعریفیں، اظہار اور نظریات منظر عام پر لا چکے ہیں۔لہذا یہ نظریہ ماضی سے عصر ِ حاضر تک نہ صرف سماجی علوم کے ماہرین بلکہ ریاضی اور سائنس دانوں کے لیے بھی تحقیقات کا موضوع رہ چکا ہے۔ آج کی قسط میں ہم وقت کی افہام و تفہیم اور سمجھ بوجھ کے سماجی پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔وقت کا مفہوم اس اعتبار سے دینی سوجھ بوجھ کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتا ہے۔ اسلام کے مطابق وقت ایک حیاتی قدر کی حامل ہے۔ اس بنا پر قرآن کریم کے خلاصے کی قدر و قیمت میں سورۃ عصر، عصر کی قسم کھاتے ہوئے شروع ہوتی ہے۔ یہ عصر یعنی وقت کا صحیح استعمال نہ کرنے والوں اور وقت کی قیمت کو نہ سمجھنے والوں کا انجام بُرا ہونے کی اطلاع دیتی ہے۔ یہ مؤقف کسی سماجی حقیقت ، نظام اور معاشرتی اصولوں کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے بھی ارشاد فرمایا کہ "انسانوں کی اکثریت دو نعمتوں کا غلط استعمال کرتی ہے۔ ان میں سے ایک صحت اور دوسرا وقت ہے"، آپ نے یہ فرماتے ہوئے بے ٖفضولی میں وقت گزرانے کے نقصانات پر زور دیا تھا۔
دین اسلام کے مطابق وقت کا صحیح استعمال ، حتی اپنے لیے وقت نکالنا، اور اس سے بھر پور طریقے سے استفادہ کرنا اور اس کو با معنی بنانا، مسلمانوں کی اولیت کی ذمہ داریوں میں شمار ہوتا ہے۔ دین اسلام کی انسانوں سے مطلوبہ عبادتوں اور حضرت محمد ﷺ کی سوانح حیات کا جائزہ لینے سے اس حقیقت سے آگاہی ملتی ہے کہ اسلامی معاشرے کا مرکز وقت پر مبنی ہے۔ اسلام کی رُو سے ضروری اعمال میں انسانوں کے وقت کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہونے کے اشاروں بھی ملتے ہیں۔پانچ وقت کی نماز ، روزہ، حج، زکواۃ، قربانی وغیرہ کا ہمیشہ وقت سے تعلق ہوتا ہے جو کہ انسانی زندگی اور سماجی نظام سے ہم آہنگ عبادت و فریضے ہیں۔اس کا یہ مطلب ہے کہ عبادت کے لیے وقت اصلی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ انسانوں کی عملی زندگیوں کے نظام کو بھی وضع کرنے والے ایک پہلو کا حامل ہے۔
انسانی زندگی میں ایک انتہائی اہمیت کے حامل وقت کی سمجھ بوجھ کے اندر خالی وقت کے نظریے کو بھی فروغ دیا گیا ہے۔ انسان ماضی سے ابتک شعوری طور پر وقت کو فضول میں ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ ، بعض اوقات جسمانی تقاضے اور کام کاج کے لیے مختص کردہ وقت کے بعد باقی ماندہ خالی وقت کو مختلف سرگرمیوں کے ساتھ بروئے کار لاتا چلا آیا ہے۔ عصر حاضر میں یہ وسیع پیمانے پر کتاب کا مطالعہ کرنے، بازاروں شاپنگ سنٹر ز میں گھومنے پھرنے، ٹیلی ویژن دیکھنے، کھیل کھیلنے اور ہر طرح کی فنونی سرگرمیوں کے علاوہ دیگر انسانوں کے ساتھ گپ شپ لگاتے ہوئے وقت گزارنے کا مفہوم رکھتا ہے۔ لوگ فارغ وقت کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے وقت شاید زیادہ تر ان کے فنکشنز سے باخبر نہیں ہوتے۔ تا ہم فارغ اوقات کی سرگرمیاں ان فنکشنز کو ڈھکے چھپے طریقے سے یا پھر واضح طور پر پورا کر پاتی ہیں۔
ہر لحاظ سے ترقی کی جانب گامزن دنیا میں اوقات ِ کار میں کمی ، انسانوں کی اُجرتوں میں اضافہ، ٹیکنالوجی اور دیگر امکانات و وسائل میں اضافے کے باعث فارغ اوقات کی سرگرمیوں میں نواع اور وسعت آئی ہے۔یہ صورتحال بیک وقت انسانوں کو مزید فرصت کا وقت بھی فراہم کر رہی ہے۔ با منصوبہ اور بلا منصوبہ ہر عمر اور ہر طبقے کے انسانوں کو استعمال کرنے کا موقع فراہم کرنے والی فارغ وقت کی سرگرمیوں میں لوگوں کی اکثریت اب دلچسپی ظاہر کرنے لگی ہے۔لہذا انسانوں کے کس طرح تفریح کرنے، کس طرح سستانے، فارغ وقت کو کس طرح فائدہ مند طریقے سے استعمال کرنے، ان سرگرمیوں کو صحت مندمعاشرے کے پلنے بڑھنے کے لحاظ سے کس طرح بروئے کار لائے جانے کی طرح کے معاملات ایک سماجی مسئلے کے طور پر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اس بنا پر فارغ وقت نے خاصکر خوش باش معاشرے اور افراد کے جنم لینے کے لحاظ سے انسانوں کے تفریح کرنے، سستانے اور اچھا وقت گزارنے کی ضرورت کو پورا کرنے والی ایک ضرورت کی اہمیت حاصل کر لی ہے۔
سماجی اعتبار سے وقت کو عمومی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک حیاتیاتی طور پر زندہ رہنے کے زیر مقصد کھانا کھانے، سونے اور دیگر حیاتی اہمیت کے حامل اوقاتِ کار ہیں۔دوسرا حصہ روزی کمانے کے لیے محنت و مشقت کے لیے صرف کیے جانے والے وقت پر مبنی ہے۔ جبکہ تیسرا حصہ، سستانے، تفریح کرنے اور اچھا وقت گزارنے کے دورانیے کو تشکیل دیتا ہے۔ فارغ وقت کی سرگرمیاں عمر، مقام، وقت ، شرکاء کی تعداد کے مطابق مختلف نوعیت کی ہو سکتی ہیں۔
فرصت کے لمحات کا صحیح استعمال کرنا فرد کا سماج کے ساتھ ہم آہنگی قائم کرنے کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ خاص کر نرسری اور پرائمری کی تعلیم کے دوران بچوں کے ہنر سیکھنے میں یہ فارغ وقت ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ یہ بچوں کے جسمانی صحت سے ہمکنار ہونے، ذاتی صلاحیتوں کو فروغ دینے، خدمت کرنے کے جذبات، منصوبہ بندی کے مطابق سستانے، ذہنی طاقت کو استعمال کرنے کی خوبیوں کو نکھارنے یا پھر ان میں متبادل پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
بالغاں میں منصوبہ بندی پر مبنی فرصت کے لمحات کی سرگرمیوں کو عائلی، مذہبی، اقتصادی اور تعلیمی فوائد کے حامل کاموں میں بدلا جا سکتا ہے۔ یہ بیک وقت خصوصی گروہوں کے اندر تعلق، ذمہ داری، سماجی اشتراکیت کی طرح کے عوامل کو عملی جامہ پہنائے جانے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ دوسری جانب فرصت اور فارغ اوقات کو صحیح طریقے سے بروئے کار لائے جانے سے معاشرے میں کئی جرائم کا سد باب کیا جانا ممکن ہے۔
اگر مندرجہ بالا موضوع کا خلاصہ پیش کیا جائے تو یہ کہنا ممکن ہے کہ ایک الہٰی ذمہ داری کے طور پوری کی جانے والی مذہبی ذمہ داریوں کا فارغ اوقات کے حوالے سے بڑا اہم کردار پایا جاتا ہے۔ عیدیں اور دیگر مذہبی عوامل ، براہ راست دینی خصوصیت کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ اجتماعی طور پر فارغ وقت کو بروئے کار لانے کے موزوں ترین راستوں میں سے ایک ہیں۔
چونکہ تقریبات میں شراکت کا تقاضا تمام تر معاشروں میں کسی کائناتی امر کی حیثیت رکھتا ہے۔ مذہبی تہوار، قومی تہوار، میلے اور کسی میچ کے بعد منائے جانے والے جشن اور خوشی کے لمحات کو انسان کی تقریبات میں شریک ہونے کی خواہش کی مثال کے طور پر دکھایا جا سکتا ہے۔ اس قسم کی تفریحات عمومی طور پر معلومات سے آگاہی کروانے کی تقریبات کے طور پر تصور کی جاتی ہیں۔ فرصت کے اوقات میں دوست و احباب سے ملنے جلنے کی طرح کی متعدد سرگرمیاں، انسانوں کے بیچ دوستی کو فروغ و تقویت دینے میں مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔اس نوعیت کے عوامل بیک وقت انسان کو روحانی و دماغی پختگی دلانے اور اسے سماج کا فائدہ مند عنصر بننے میں معاونت فراہم کرتے ہیں۔
اس نکتے پر اکثر اوقات دینی سرگرمیوں اور سماجی حیثیت میں تفریق کو فراموش کر دیا جاتا ہے، اور ہر طبقے کے لوگ ایک دوسرے سے بغلگیر ہونے کا موقع حاصل کرتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ اس طرح کی سرگرمیاں سماجی اور مالی تفریق کا قلع قمع کرتی ہیں۔یہاں پر اس چیز کو جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دینِ اسلام میں وقت کو بلا وجہ ضائع کرنے کی قطعی طور پر ممانعت ہے۔



ٹیگز:

متعللقہ خبریں