ترکی کی تاریخی ،سیاحتی و ثقافتی اقدار28

انقرہ کا تاریخی پس منظر

130479
ترکی کی تاریخی ،سیاحتی و ثقافتی اقدار28

جمہوریہ ترکی کا دارالحکومت انقرہ ، استنبول کے بعد ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے جس کا وسیع حصہ وسطی اناطولیہ سے ملحقہ بالائی ساقاریہ کے علاقے میں واقع ہے ، عام طور پر اس علاقے کا موسم خشک جبکہ شمالی علاقے کا موسم گرم مرطوب اور بارانی ہوتا ہے۔ انقرہ کے نام سے متعلق بھی کافی مختلف آرا موجود ہیں ،بعض محققین کے مطابق حطیطی دور سے وابستہ بعض تحاریر میں علاقے کا نام آنقووا تھا جس کے بعد فریگی ،گلاتا اور رومی قوم نے اس خطے کو انکورا پکارنا شروع کر دیا ۔ بعض روایات کی رو سے انقرہ وہ جگہ ہے کہ جہاں سے فریگی فرماں ر وا میداس کے بحری جہاز کا لنگر ملا تھا۔ جس کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علاقے کا نام انگورو سے تبدیل ہوتےہوئے انقرہ پڑ گیا۔
انقرہ بھی وسطی اناطولیہ کے بعض شہروں کی طرح مختلف تہاذیب کا گہوارہ رہا ۔ شہر کے اطراف سے اہم اور تاریخی آثار ملے ہیں مثال کے طور پر انقرہ کے علاقوں آحلاتلی بیل، کوچون بیلی،یالینجاک اور غاور قلعہ سے نیولیتیک، تنج اور حطیطی قوم کے ادوار سے وابستہ بعض آثار بازیاب کیے گئے ہیں۔
انقرہ کی وجہ شہرت قریب واقع گوردیون کے تاریخی شہر کو فریگی قوم کے صدر مقام سے مزید ابھر کر سامنے آگئی ۔ ایک دور میں بازنطینی سلطنت کے زیر اثر آنے والا یہ شہر چودہویں صدی میں ترکوں کے قبضے میں آگیا جس کے بعد تیرہ اکتوبر سن انیس سو تیئس میں جمہوریہ ترکی کا دارالحکومت بن گیا ،

انقرہ ، قدیم آباد یوں پر قائم ہونے کی وجہ سے یہاں سے کثیر تعداد میں تاریخی نوادرات بازیاب کرنے میں دشواری پیش آئی ۔ شہر کا قدیم ترن علاقہ اولوس ہے جو کہ سیاحتی اعتبار سے بھی کایف اہمیت کا حامل ہے ۔ رومی دور سے وابستہ آگوستوس کا معبد بھی یہ واقع ہے کہ جسے فریگیوں کے دیوتا من اور کیبیلے کی پرستش کےلیے تعمیر کیا گیا تھا۔ بازنطینی دور میں اس معبد کو ایک گرجا گھر میں تبدیل کر دیا گیا جس کے بعد عثمانیوں کے دور میں اس عمارت کو مدرسہ کا درجہ دے دیا گیا ۔
دور روم سے وابستہ ایک پندرہ میٹر طویل ستون ہے جو کہ حکمراں جولیون کی یاد میں تعمیر کیا گیا تھا یہ ستون اس وقت انقرہ کے گورنر ہاوس کے سامنے واقع میدان میں رکھا گیا ہے۔ اولوس سے دش کاپی کی طرف جاتےہوَت بائیں جانب رومی حمام کے کھنڈرات موجود ہیں جو کہ تیسری صدی میں قارا قالا دور میں صحت و تندرستی کے دیوتا آسکلیوپیوس کے نام سے تعمیر کیا گیا تھا۔
انقرہ میں اہم ترین ترک تاریخی ورثہ اولوس میں واقع حاجی بیرام جامع مسجد ہے جو کہ عظیم ترک مفکر اور بیرامیہ طریقہ تبلیغ کے بانی حاجی بیرام ولی کے نام پر پندرہویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی ۔ اس مسجد کے اندرونی طرز تعمیر میں چینی کاری کا نفیس کام کیا گیا ہے جبکہ مسجد کے باہر احاطے میں حاجی بیرام ولی مدفن ہیں۔
انقرہ میں سلچوک دور سے وابستہ آثار میں انقرہ کے قلعے کے جنوب میں ات پازاری نامی علاقے میں واقع شرافت الدین جامع مسجد ہے کہ جو سلچوک فن معماری کا بہترین نمونہ ہے ۔ اسی علاقے میں پندرہویں صدی سے وابستہ آخی الوان جامع مسجد ہے کہ جس میں اخروٹ کی لکڑی کا بخوبی استعمال کیا گیا ہے۔
قلعہ انقرہ میں واقعی تاریخی مساجد میں ایک سلچوک فرما ں روا قلیچ ارسلان دوئم کے بیٹے اور انقرہ کے گورنر مسعود کی طرفساے تعمیر کروائی گئی تھی جس کا نام علاو الدین مسجد ہے۔ اس مسجد کے اندرونی حصوں میں بھی اخروٹ کی لکڑی کا کام انتہائی نفاست سے کیا گیا ہے۔
انقرہ میں کافی تعداد میں تاریخی بازار بھی اولوس میں موجود ہیں۔ یہ بازار آج بھی تجارتی لحاظ سے گہما گہمی قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ان بازاروں میں سب سے اہم چنگل خان نامی بازار ہے جو کہ انقرہ کے قلعے کے بالکل نیچے واقع ہے جو کہ سولہویں صدی میں عثمانیوں کی طرف سے قائم کیا گیا تھا ۔
اس کے علاوہ قلعے کے بالائی حصے میں واقع قورشون لو نامی بازار سلطان محمد خان کے وزرا میں سے محمود پاشا کی جانب سے پندرہویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا ۔ محمود پاشا کی طرف سے تعمیر کردہ ایک دیگر بازار بھی یہاں واقع ہے جو کہ دور حاضر میں اناطولیہ کے تاریخی عجائب خانے کے طور میں استعمال کیا جا رہا ہے۔
انقرہ کے دیگر اہم مقامات میں مزار اتاترک بھی شامل ہے کہ جہاں جمہوریہ ترکی کے بانی مصطفی کمال ابدی نیند سو رہے ہیں ۔ اتاترک کے مزار کے قریب ہی ایک عجائب خانہ بھی موجود ہے جہاں ان کے زیر استعمال اشیا رکھی گئی ہیں۔
انقرہ میں ترک تاریخ اور لوک دستکاریوں پر مشتمل ایک عجائب خانہ بھی موجود ہے کہ جہاں روایتی ملبوسات، ترک دستکاری اور دیگر اشیا نمائش کےلیے رکھی گئی ہیں۔
اس عجائب خانے کے قریب ہی ایک دیگر عجائب خانہ موجود ہے جہاں فن مصوری اور مجسمہ سازی کے نادر نمونے رکھے گئے ہیں جن کا زیادہ تر تعلق انیسویں صدی سے ہے


ٹیگز:

متعللقہ خبریں