عالمی ایجنڈا ۔78

108370
عالمی ایجنڈا ۔78


وزیر اعظم رجب طیب ایردوان کے 24 مئی کو جرمنی اور 19 جون کو ویانا کے دورے سے یہ حقیقت سامنےآئی ہے کہ ترکوں کو جرمن اور پورے یورپی معاشرے میں بنیادی عناصر کی حیثیت حاصل ہے ۔ جس طرح ترکوں کے عدم موجودگی والے یورپ اور جرمنی کا تصور نہیں کیا جا سکتا اسی طرح ایسے یورپ کا بھی تصور نہیں کیا جا سکتا جس میں ترکی شامل نہ ہو ۔سرکاری اعدادوشمار کیمطابق اسوقت جرمنی میں 3٫5 میلین ترک آباد ہیں ۔ترکوں کی یہ تعداد یورپ کے بعض ممالک کی تعداد سے بھی زیادہ ہے ۔جرمنی میں مقیم ترک نہ صرف آبادی کے لحاظ سے بلکہ اقتصادی ،سماجی ،تعلیمی ،ثقافتی اور سیاسی لحاظ سے بھی اہم قوت تشکیل دیتے ہیں ۔ اسوقت جرمنی کے کونے کونے میں ترک آباد ہیں ۔جرمنی اور یورپ میں اس سے پہلے ترک صرف افرادی قوت تھے لیکن اب وہ صنعت، تجارت ،صحافت ،فنون، کھیلوں، سیاحت ،سیاست اور تعلیمی شعبوں میں بھی فعال ایکٹر کے طور پر کردار ادا کرنے لگے ہیں ۔
یلدرم بیاضت یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ۔۔
جرمنی اور ترکوں کے نام سے انسان کے ذہن میں ماضی کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں ۔ 1960 کی دھائی میں ترکوں کی جرمنی روانگی کے بعدترکی اور جرمنی کے لیے قابل ذکر نتائج سامنے آئے۔ دونوں ممالک کے درمیان انیسویں صدی میں شروع ہونے والے یہ تعلقات 21 ویں صدی میں نکتہ عروج پر پہنچ گئے ۔19 ویں صدی میں دونوں مملکتوں کےدرمیان شروع ہونے والے تعاون نے 21 ویں صدی میں اقوام کے مابین تعاون کی شکل اختیار کر لی ہے ۔جرمنی میں 3٫5 میلین ترک آباد ہیں اور ترکی میں کوئی ایسا گھرانہ نہیں ہے جس کا کوئی عزیزو اقارب جرمنی میں نہ ہو ۔یہ کہنے میں مبالغہ آرائی نہ ہو گی کہ جرمنی ترکوں کا دوسرا وطن ہے ۔ جرمنی میں مقیم ترک ترکی کی سیاست کو رخ دینے اور ترکی میں پارلیمانی نمائندوں اور صدر کو منتخب کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔
یورپ ترکوں کے لیے اقتصادی مفادات کا در ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر کئی شعبوں میں بھی
ا لہام کا وسیلہ بنا ہے ۔پہلی بار ترک روزگار کی تلاش کی غرض سے جرمنی گئے تھے مگر اب یہ ترک ترکی کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔دوھری شہریت رکھنے والے یہ ترک ترکی کی اقتصادیات میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ترک نژاد جرمن باشندے یونیورسٹیوں، صنعت ،سیاست اور کھیلوں کے شعبوں پر چھائے ہوئے ہیں اور اُن کی ان بے لوث خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔بلاشبہ ترکی اور ترکوں کو یورپ اور جرمنی سے صرف ان شعبوں میں ہی مفادات حاصل نہیں ہیں بلکہ ترکوں اور یورپی یونین کے معیار کی وساطت سے جمہوریت ،آزاریوں اور بنیادی حقوق جیسی اقدارکا حصول بھی انتہائی اہمیت رکھتا ہے ۔جمہوری بننے کے عمل میں یورپی یونین اور یورپی ترکوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ماضی میں فوجی انقلابات اور فوجی طرز حکومت کے دباو کا سامنا کرنے والے ترکوں نے جرمنی اور یورپ کے دیگر ممالک میں پناہ لے رکھی تھی۔ان میں 1980 کے فوجی انقلاب کے بعد پناہ لینے والے لیفٹیسٹ اور مارکسسٹ فنکار اور سیاستدان شامل ہیں ۔ 28 فروری کے پوسٹ ماڈرن فوجی انقلاب کے بعد ہیڈ سکارف اوڑھنے والی طالبات نے بھی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان ممالک میں پناہ لی تھی کیونکہ ترکی کی یونیورسٹیوں میں ہیڈ سکارف اوڑھنے والی طالبات کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی ۔
صورتحال کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ ترکی اور جرمنی کے 50 سالہ تعاون سے دونوں ممالک کو ہی فائدہ پہنچا ہے ۔ بلاشبہ جرمنی میں ترکوں کے وجود اور باہمی تعاون کے نتائج باعث فخر اور خوش آئند ہیں لیکن اگر ماضی میں دونوں ممالک کے مابین بعض مسائل اور رکاوٹیں نہ ہوتیں تو مزید فائدہ مند نتائج حاصل کیے جا سکتے تھے ۔
ترکی اور جرمنی کے درمیان جو مسائل موجود ہیں ان میں جرمنی میں بسنے والے ترکوں کا یورپ میں تعلیم سائنس اور تحقیقات کے امکانات سےپوری طرح فائدہ نہ اٹھا سکنا ہے ۔جرمنی کی یونیورسٹیوں میں ترک پروفیسروں کی تعداد بڑھ سکتی تھی ۔اس طر ح وہ معلومات اور زبان پر عبور رکھنے کیوجہ سے اپنی ثقافت کو منظر عام پر لا نے کیساتھ ساتھ باہمی مسائل کو باسانی حل کرسکتےتھے ۔ وہ شہری تنظیموں ،سیاست اور عدلیہ میں مقام حاصل کر سکتے تھے اور جرمن معاشرے میں مدغم ہوئے بغیر ان کیساتھ ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے اپنے خاندانوں اور ترکی کی بہترین شکل میں خدمت کر سکتے تھے ۔ جرمن عوام اور سیاستدانوں کو درپیش مسائل اور رکاوٹوں کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جرمن عوام میں مشرقی اور مسلمان برادری کے بارے میں پائے جانے والی مفروضوں، تاریخ سے چلی آنے والی قوم پرستی اور نسل پرستی،دیگر اقوام کے بارے میں رواداری کے فقدان،ترکو ں کو جرمن معاشرے میں مدغم کرنے کی کوششوں اور جرمن سیاستدانوں کے ووٹوں میں کمی ہونے کے خدشات کیوجہ سے ترکوں کے مسائل میں عدم دلچسپی ظاہر کی گئی ہے ۔اگر جرمنی ان مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو دونوں ممالک کےلیے مستقبل مزید روشن ہوتا ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں