عالمی ایجنڈا ۔77

100458
عالمی ایجنڈا ۔77

دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ عراق و الشام کے حملوں نے مشرق وسطی کے توازن کو درھم برھم کر دیا ہے ۔اس تنظیم کے ہزاروں مسلح اراکین نے موصل ،تکرت اور جوار کے علاقوں پر حملے کرتے ہوئے آسانی کیساتھ قبضہ کر لیا ۔عراق کے سنی علاقے اب دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ عراق و الشام کے زیر کنٹرول ہیں ۔یہ صورتحال نہ صرف سٹریٹیجک اہمیت کے حامل شہر موصل بلکہ پورے عراق اور مشرق وسطی کےنقشے کو بدل دینے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔اگر یہ قبضہ جاری رہا تو پھر عراق تین حصوں میں منقسم ہو سکتا ہے ۔اسطرح 1990 میں ہونے والی عراق جنگ کے بعد عراق کے تین حصوں میں تقسیم ہونے کے سیناریو حقیقت بن جائیں گے ۔اگر عراق کے بعد دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ عراق و الشام شام میں بھی اپنے مقاصد میں کامیاب رہی تو پھر 100 سالہ مشرق وسطی کا نقشہ ہی بدل جائے گا ۔پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ اور فرانس کیطرف سے تشکیل دی جانے والی عراق اور شام کی موجودہ سرحدیں ختم ہو جائیں گی اور نئی سرحدیں معرض وجود میں آ جائیں گی ۔اگر صورتحال میں کوئی تبدیلی نہ آئی تو پھردہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ عراق و الشام کے بارے میں یہ سوالات سامنے آ جائیں گے کہ یہ کیسی تنظیم ہے ، اس کے مقاصد کیا ہیں اور قلیل مدت میں یہ کس طرح طاقتور بنی ہے ۔ان سوالات کا جواب مشرق وسطی کے کس رخ کیطرف پلٹا کھانے کا اندازہ لگانے کے لحاظ سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے ۔
سامعین یلدرم بیاضت یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ پیش خدمت ہے۔
۔۔ دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ عراق و الشام کے نام سے ہی یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اس تنظیم کا مقصد عراق اور شام میں ایک اسلامی حکومت قائم کرنا ہے ۔یہ سنی نظریات کی حامل ہے اور اسلام کے بارے میں اس کا نظریہ جہاد ،انتہا پسندی ،دیگر فرقوں سے تعلق رکھنے والےمسلمانوں کو کافر قرار دینااور بوقت ضرورت تشدد سے گریز نہ کرنا ہے ۔جدید عالمی معیار سے موازنے کی صورت میں یہ تنظیم سخت گیر انتظامیہ کی حامی ہے ۔اس کی مثال موصل پر قبضے کے بعد عمل درآمد سے ملتی ہے ۔علاقے کے کسی بھی ملک میں یہ اس قسم کے کٹر نظریات موجود نہیں ہیں اور یہ سخت گیر نظریات علاقائی شرائط کے برخلاف ہیں ۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ عراق و الشام کیطرف سے قائم کی جانے والی حکومت سے نہ صرف عراق اور شام بلکہ پورا علاقہ بے چینی محسوس کر ئے گا ۔مغربی ممالک کے علاوہ علاقائی ممالک بھی کٹر طرز حکومت کی مخالفت کریں گے ۔یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ عراق و الشام اس قدر خطرنا ک ہے تو پھر وہ علاقے میں کس طرح طاقتور بننے میں کامیاب ہوئی ہے ۔اس نے موصل اور تکریت جیسے شہروں پر کس طرح آسانی کیساتھ قبضہ کر لیا ہے ؟ اس سوال کا دو نقطہ نظر سے جواب دیا جا سکتا ہے ۔پہلا یہ کہ اسوقت عراق اور شام میں طاقت اور انتظامیہ کا فقدان ہے ۔عراق میں شہروں میں سلامتی قائم کرنے والی فوج اور ہتھیار موجود نہیں ہیں۔ عراق کے پاس نہ منظم فوج ہے اور نہ ہی ملک کا دفاع کرنے والے عوام ۔ کئی برسوں سے انتشار اور افراتفری کے شکار ملک عراق کے چند علاقوں اور شہروں کے سوا کہیں بھی سلامتی کا ماحول موجود نہیں ہے۔ دوسری طرف شام میں خانہ جنگی کیوجہ سے اسد انتظامیہ کا دولت اسلامیہ عراق و الشام تنظیم کیخلاف کاروائی کرنا نا ممکن ہے ۔بقول تھومس ہوبس عراق اور شام میں جنگل کا قانون پایا جاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ قبضے کے دوران عراق کے بعض قبیلوں نے اس تنظیم کی حمایت کرتے ہوئے کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی ۔دعووں کیمطابق دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ عراق و الشام کی فوج 40 ہزار افراد پر مشتمل ہے اور اس کے پاس بھاری تعداد میں اسلحہ و گولہ بارود موجود ہے ۔شر پسندوں کی ایک بڑی تعداد شام کے راستے یورپ سے آنے والے نوجوانوں پر مشتمل ہے اور اس تنظیم کو فوجی اور مالی امداد یورپ اور علاقائی ممالک کیطرف سے فراہم کی گئی ہے ۔ان ممالک کیطرف سے فراہم کردہ امداد اور حمایت نے تنظیم کو انتہائی نڈر اور طاقتور بنا دیا ہے ۔ دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ عراق و الشام یہ مضحکہ خیز دعوے کر رہی ہے کہ وہ سنیوں کو دیگر فرقوں پر حاصل بالا تری کو مزید فروغ دے گی اور ایران کی علاقے میں پائی جانے والی مذہبی قیادت کے اثرورسوخ کو ختم کر ئے گی۔یہ دعوی بعض ممالک کی پالیسیوں اور مفادات کیساتھ مفاہمت رکھتا ہے ۔اگرچہ یہ ممالک اس تنظیم کے نظریات سے اختلافات رکھتے ہیں مگر اس کی کاروائیوں کیخلاف کوئی قدم بھی نہیں اٹھا رہے ہیں ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان ممالک کیطرف سے کسی قسم کا رد عمل ظاہر نہ کرنے کیوجہ سے دہشت گرد تنظیم کو اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل ہو رہی ہے ۔یہاں پر امریکہ ،یورپ اور دیگر ممالک کیطرف سے دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ عراق و الشام کے موصل اور تکریت پر قبضے کیخلاف کسی قسم کا قدم نہ اٹھانا باعث ِتجسس ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ ، نیٹو اور عالمی سلامتی کے اداروں نے اس تنظیم کیطرف سے متعدد شہروں پر قبضے کیخلاف سخت فیصلے اور اقدامات کیوں نہیں کیے ہیں اور وہ اس نازک صورتحال کا خاموش تماشا کیوں دیکھ رہے ہیں ؟
دولت اسلامیہ عراق و الشام کے عراق اور شام پر حملوں سے نقصان اٹھانے والے ممالک حالیہ صورتحال کیوجہ سےشش و پنچ میں مبتلا ہیں ۔ حالات ترکی کے لیے خطرناک ثابت ہو رہے ہیں ۔اس دہشت گرد تنظیم نے موصل میں ترکی کے قونصل خانے پر قبضہ کرتے ہوئے ترکی کے 49 شہریوں اور علاقے میں موجود 31 ترک ٹرک ڈرائیوروں کو یرغمال بنا لیا ہے ۔ ترکی اپنے شہریوں کو باحفاظت رہا کروانے کے لیے سفارتی کوششوں کو جاری رکھے ہوئے ہے ۔تنظیم کے حملے، یرغمالیوں کے مسئلے اور خارجہ پالیسی کے مفادات کے لحاظ سے ترکی کا سر درد بنے ہوئے ہیں ۔یرغمالیوں کے بحران کو حل کرنے کا طریقہ کار داخلی اور خارجی پالیسیوں کی حکمت عملی سے وابستہ ہو گا ۔ اب داخلی پالیسی میں تمام سرکاری اداروں اور سیاسی شخصیات کو اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے اور سیاستدانوں کو اس مسئلے کے حل کی کوششوں کو سیاسی رقابت کا آلہ کار نہیں بنانا چاہئیے ۔ خارجہ پالیسی کے لحاظ سے بھی ترکی کو دانشمندی کیساتھ سفارتی موقف اپنانے اور فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ۔ترکی نہ دولت اسلامیہ عراق و الشام تنظیم کو اپنا مد مخاطب بنا سکتا ہے اور نہ ہی اس کیخلاف کاروائیاں کر سکتا ہے کیونکہ دونوں طرح کے فیصلے ترکی کے مفادات کیخلاف ہیں ۔ترکی مغربی ممالک اور علاقائی ممالک کیساتھ تعاون کرتے ہوئے ہی اس تنظیم سے لاحق خطرات کو دور کرنے میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے ۔ لیکن اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئیے کہ اس قسم کے سلامتی بحرانوں کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ اور نیٹو کا تعاون فائدہ مند ثابت ہو تا ہے ۔

 

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں