عالمی ایجنڈا

80171
عالمی ایجنڈا

وزیر اعظم رجب طیب ایردوان نے 24 مئی 2014 کو جرمنی کے شہر بون کا ایک روزہ دورہ کیا ۔ان کے دورے کا مقصد یورپی ترک ڈیموکریٹس یونین کے دسویں یوم تاسیس کے پروگرام میں شرکت کرنا اور 18 ہزار کے گنجائش کے لانیکسیس ایرینا میں جرمنی میں مقیم ترکوں سے ملاقات کرنا تھا ۔ان کے دورے کے دوران بون میں جمع ہونے والے مخالف گروپوں نے ان کے کیخلاف احتجاجی مظاہرہ بھی کیا ۔
ا یلدرم بیاضت یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ پیش خدمت ہے۔
ترکی اور جرمنی کے تعلقات معمولی نوعیت کے بین الا قوامی تعلقات نہیں ہیں کیونکہ جرمنی میں تین میلین سے زائد ترک باشندے رہائش پذیر ہیں جبکہ ترکی میں 80 ہزار کے قریب جرمن شہری مقیم ہیں ۔دونوں ممالک کے درمیان موجود گہرے انسانی ،سماجی ،ثقافتی، اقتصادی، تجارتی، سائینسی اور سٹریٹیجک پہلووں نے ترک اور جرمن عوام کو ایک دوسرے سے وابستہ کر دیا ہے ۔یہ وابستگی دونوں ممالک کی ملکی خوشحالی ،امن وامان اور استحکام پر اثرات مرتب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔یہ قوت اب طرفین کے درمیان سیاسی رقابت اور کشیدگی کا سبب بن رہی ہے ۔باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے لحاظ سے وزیر اعظم ایردوان کا یہ دورہ انتہائی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ جرمنی کے بعض اخبارات اور سیاسی شخصیات کچھ عرصے سے استنبول میں پیش آنے والے گیزی واقعات کیوجہ سے حکومت ترکی اور وزیر اعظم ایردوان پر کڑی تنقید کر رہے تھے ۔حتی کہ یہ خبریں ملی تھیں کہ جرمنی کے بعض مراکز ترکی میں پیش آنے والے واقعات کو ہوا دے رہے ہیں ۔دراصل ایردوان کا دورہ بون ان نکتہ چینیوں کے جواب کی خصوصیت کا حامل تھا کیونکہ وزیر اعظم نے ایرنا میں اپنے طویل خطاب کے دوران تمام تر نکتہ چینوں کو سخت الفاظ میں مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ترکی اب پہلے جیسا ترکی نہیں رہا ہے اور اندرونی اور بیرونی شر پسند عناصر نئے ترکی کو اب دھمکیاں نہیں دے سکیں گے ۔اس طرح انھوں نے گیزی واقعات ،صوما حادثے اور استنبول کے مظاہروں کی حمایت کرنے والوں کو سخت الفاظ میں متنبہ کیا ۔
جرمنی میں موجود ترک افرادی قوت کی جرمنی کی ترقی میں کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔جرمنی میں بسنے والی ترک برادری کا استحکام دراصل جرمنی کا استحکام ہے ۔ترک برادری کےہم آہنگی اور امن کیساتھ زندگی بسر کرنے کا انحصار ایک خاص حد تک ترکی کی حکومتوں پر ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جرمنی کی چانسلر انگیلا مرکل نے وزیر اعظم ایردوان سے خطاب کے دوران اعتدال پسندی کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے ۔جواب میں وزیر اعظم ایردوان نے بھی اپنے خطاب میں انتہائی اہم،مثبت اور تعمیری باتیں کی ہیں ۔انھوں نے اپنے حامیوں اور مخالفین کے درمیان کشیدگی اور جھڑپ کا باعث بننے والے اور جرمنی اور ترکی کے تعلقات کو نقصان پہنچانے والے سخت خطاب کرنے سے گریز کیا ۔انھوں نے ترکی اور جرمنی کے درمیان مستقبل میں ہونے والےتعاون کا ذکر کیا اور اور اسطرف توجہ دلائی کہ ترکی کے بغیر یورپ میں استحکام قائم نہیں ہو سکے گا ۔اس دائرہ کار میں انھوں نے یورپی یونین میں ترکی کی رکنیت کی اہمیت کی بھی وضاحت کی ۔انھوں نے جرمنی میں بسنے والے ترک باشندوں سے جرمن زبان سیکھتے ہوئےجرمن معاشرے میں گھل مل جانے کیساتھ ساتھ اپنی ثقافت کا بھی تحفظ کرنے کا اپیل کی ۔ انھوں نے تہذیبوں کے ملاپ کا ذکر کرتے ہوئے یورپ میں اسلامک فوبیا ،یہودی دشمنی اور نسل پرستی کے خطرے کیطرف توجہ دلائی۔ ان کا یہ خطاب ترکی کی یورپی یونین اور مغرب میں دلچسپی کا آئینہ تھا ۔وزیر اعظم رجب طیب ایردوان نے یورپی یونین پر تنقید کرنے سے گریز بھی نہیں کیا ۔ انھوں نےخاصکر دیگر ممالک کے جمہوری مسائل پر نکتہ چینی کرنے والے جرمنی اور یورپی یونین کے ممالک کیطرف سے مصر کی انقلابی حکومت پر نکتہ جینی نہ کرنے کیطرف اشارہ کیا اور کہا کہ یورپی ممالک نے مصر کی انقلابی السیسی انتظامیہ کیطرف سے قتل عام کو نظر انداز کیا ہے ۔
وزیر اعظم رجب طیب ایردوان کا یہ دورہ ترکی اور جرمنی کے تعلقات کے مستقبل کے لحاظ سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ دونوں ممالک کے تعلقات کو کلاسیک ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے تعلقات سے ہٹ کر مساوی سطح پر لاتے ہوئے فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ اب اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہئیے کہ ترکی اور جرمنی ایک دوسرے سے دور نہ رہ سکنے کی حد تک ایک دوسرے سے وابستہ ہیں لیکن اس وابستگی کو دوطرفہ احترا،م مساوات ہمدردی اور مفاہمت کیساتھ مزید قوت بخشنے کی ضرورت ہے اور اس کا واحد راستہ ترکی کیساتھیورپی یونین کی رکنیت کے مذاکرات کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے ۔سیاسی صورتحال کیوجہ سے اگر اسوقت یہ ممکن نہیں ہے تو پھر بھی مذاکرات کے عمل کو جاری رکھا جانا چاہئیے ۔سات سال قبل تمام ممالک کیطرف سے قبول کیے جانے والے "تہذیبوں کے درمیان ڈائیلاگ اور ترکی کے بغیر یورپ ادھورا ہے" جیسے دعووں کو دوبارہ منظر عام پر لانے اور انھیں تقویت دینے کی ضرورت ہے ۔یورپی یونین اور جرمنی کے علاوہ ترکی کو بھی ہر طرح کی رکاوٹوں کے باوجود یورپی یونین کی رکنیت کے عمل کو جانبر کرنا چاہئِے ۔ انسانی تعلقات کیطرح عالمی تعلقات میں بھی طرفین کے ایک دوسرے سے قریب آنے سے مسائل اور بحران پیدا ہونے کا احتمال بڑھ جاتا ہے ۔ اگر اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ترکی اور جرمنی کے تعلقات میں بحران کا پیدا ہونا قدرتی بات ہے ۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی بحران ہمیشہ جاری نہیں رہتا ۔منتظمین انھیں کسی نہ کسی طریقے سے حل کر لیتے ہیں ۔ترکی اور جرمنی میں بحران کو حل کرنے والے دوراندیش اور طاقتور لیڈر موجود ہیں لیکن بحران کو حل کرنے کے لیے باہمی اعتماد اور مفاہمت کا ہونا ضروری ہے ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں