پاکستان اور ترکی کے تعلقات پر ایک نظر

62933
پاکستان اور ترکی کے تعلقات پر ایک نظر

پا کستانی وزیر اعظم نواز شریف نے جولائی 1993 میں ترکی میں ای سی او کانفرنس میں شرکت کی غرض سے ترکی کا دورہ کیا تو ان کے وفد میں چودہری نثار علی خان اور شاہد خاقان عباسی خصوصی طور پران کے وفد میں شامل تھے جہاں نواز شریف نے سیلمان دیمیرل سے ملاقات کی۔ نواز شریف اپنے وفد کے ہمراہ پاکستان سے آئی ایس آئی اور وزرات خارجہ کی بریفنگ لے کر ترکی کے دورے پر گئے تھے ترکی خاص طور پر مسئلہ کشمیر کو اہمیت دیتا ہے اس بنا پر پاکستانی وزیر اعظم اور ان کے وفد کے ارکان کشمیر پر اپنے خیالات اور اعداد و شمار کا ریکارڈ لے کر ترکی پہنچے۔
دونوں ممالک کے نمائندگان نے اپنے اپنے ملکی مسائل کو زیر بحث لایا علاوہ ازیں پاک ۔ ترک اسلامی روایات پر بات بھی ہوئی۔اس دوران ترکی کے صدر سلیمان دیمیرل نے بڑے احترام سے جواب دیتے ہوئے کہا جناب وزیر اعظم صاحب آپ بھی مسلمان ہیں اور میں بھی۔ ہم دونوں بھائی بھائی بھی ہیں، پاکستان ترکی کے درمیان صدیوں کے رشتے بھی قائم ہیں، ہمیں وقت ضائع نہیں کر ناچاہیے۔ اب آپ بتائیں کہ آپ کے پاس ترکی کو فروخت کرنے کے لیے کیا کیاہے ؟ اور ہم آپ کو بتاتے ہیں ترکی آپ کو کیا فروخت کر سکتا ہے ؟اس سے ہمارے تعلقات آگے بڑھیں گے نواز شریف اس رد عمل کے لئے تیار نہ تھے جس کی وجہ سےبات آگے نہ بڑھ نہ سکی اور یہ ملاقات یہیں پر ختم ہو گئی۔
پاکستانی وزیر اعظم نے اپنے وفد کے ہمراہ جب ترکی کا دورہ کیا تھا تو 1993 میں ترکی کے حالات بھی کچھ اچھے نہ تھے۔ ترکی میں اس وقت کساد بازاری ، غربت ، مہنگائی ،بے روز گاری بھی زوروں پر تھی۔
ترک فوج نے سیاسی عمل کو روک لیا تھا اور ترک معاشرہ بھی مفلوج زدہ ہو چکا تھا لیکن حالات نے پلٹا کھایا اور ٹھیک دس سال بعد ترکی نے وہ بے مثال ترقی کی جسے دیکھتے ہوئے پوری دنیا حیران و پریشان ہو کر رہ گئی۔ دس سا ل پہلے والے ترکی نے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے نہ صرف دنیا میں اپنے آپ کو منوایا بلکہ خود کو پُر امن ترین ملک ہونے کا اعزاز بھی دلایا۔ اس کے بر عکس پاکستان کی ترقی کا گراف تیزی سے نیچے گرتا چلا گیا۔ دراصل ترک قوم پاکستانی قوم سے زیادہ توجہ کرنے والی غیر جذباتی اور کاروباری ذہن کی مالک ہے۔ ترک قوم نے آج سے بیس برس قبل پاکستان کو اقتصادی تعاون کی پیش کش کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ اگر ہم تجارت میں کامیاب نہ بھی ہو سکے تو فکر کی کوئی بات نہیں مسلمان ہونے کے ناطے ہم آپس میں بھائی بھائی تو ہیں۔
یہی سوچ جدید ترکی کی بنیاد ہے۔ ترکی پچھلے 20 برسوں سے اس زاویے پر سوچ رہا ہے جس پر چل کر یہ ترقی کی منازل طے کر سکتاہے جب کہ ترکی خود کو صرف ترقی یافتہ اور ماڈرن ثابت کرتا ہے۔ حالانکہ ہم ترکی کو اسلامی ملک سمجھتے ہیں اور ہم ہمیشہ رجب طیب ایردوان اور عبداللہ گل کی بیگمات کے اسکارف اور نیکلس کی باتیں بھی کرتے ہیں۔
لیکن سچ یہ ہے کہ ترکی میں اسلامی روایات کی واپسی نئی مسجدوں کی تعمیر، شراب کی فروخت میں حد بندی ، مذہبی گفتگو کی آزادی وغیرہ کی بحالی ہو چکی ہے۔ حتی امریکہ اور اسرائیل بھی ترکی کی طاقت کو اب مان چکے ہیں۔ان کی بنیاد پر آج ترکی کو آج کی اسلامی ریاست اور جناب رجب طیب ایردوان اور عبداللہ گل کو صلاح دین ایوبی تصور کیا جاتا ہے۔
لیکن ایردوان نے ہی جون 2005 میں اسرائیلی صدر شمعون پیریزکو ترکی کی دعوت دی اور دو سال بعد اسرایئلی صدر شمعون پیریز نے اس دعوت قبول کرتے ہوئے نومبر 2007 میں ترکی کا دورہ بھی کیا، تو ترکی کی حکومت نے نہ صرف ان کا بے مثال استقبال کیا بلکہ ان سے ترک پارلیمنٹ کا خطاب بھی کرایا۔ یوں شمعون پیریز اسرائیل کے پہلے ایسے صدر بنے جنہیں کسی اسلامی ملک کی پارلیمنٹ میں قدم رکھنے اوراس سے خطاب کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اور ترکی دنیا کا پہلا اسلامی ملک بن گیا جس نے کسی اسرایئلی صدر کو اتنی زیادہ اہمیت دی، ترکی کی اسرائیل کی جانب توجہ کی وجہ سےآج ترکی کے اسرائیل کے ساتھہ تجارتی ،صنعتی ، اور سیاحتی تعلقات قائم ہو چکے ہیں۔ ہم اکثر یہ کہتے ہیں کہ ترکی اسلامی ملک ہے لیکن دنیا اسے اسلامی ملک نہیں بلکہ ایک جدید اسلامی ملک کہتی ہے ترک بہت سیدھے سادھے اپنے خیالات میں واضح اور بزنس فرنیڈلی لوگ ہیں۔ لیکن یہ نیل کے ساحلوں سے لے کر کاشغر کی خاک تک اسلامی دنیا کی ٹھیکیداری نہیں کرتے کیونکہ یہ جان چکے ہیں کہ ہر جگہ پر مذہبی آزادی ہوتی ہے اگر آپ حجاب لینا چاہتی ہیں تو ضرور لیں لیکن آپ کو بے پردہ عورتوں کا مذاق ُاڑانے کی کوئی اجازت نہیں۔ اسی طرح اگر آپ ننگے سر پھرنا چاہیں تو آپ کو بھی اسکارف والی عورتوں پر تنقید کرنے کا کوئی حق نہیں ۔
آپ مسجد جانا چاہتے ہیں مسجد حاضر ہے آپ چرچ یا مند ر جانا چاہیں یہ بھی موجود ہیں آپ کو وہاں عبادت سے کوئی نہیں روکے گا آپ اگر کلبوں یا ریستورانوں میں جانا چاہیں تو آپ کو اس کی بھی آزادی ہے۔ ترکی اسی سوچ سے آگے بڑھ رہا ہے کہ آپ ترکی جائیں تو آپ کو پورے ملک میں یہ ماڈرن کلچر ملے گا اور آپ کو استنبول میں سلطان احمد کے علاقے میں اسلامی روایات بھی ملیں گی لیکن آپ کوتقسیم اسکوائر میں یورپ اور امریکہ کی جھلک بھی دکھائی دے گی۔ ازمیر اور انطالیہ کے ساحل گرمیوں میں یورپی جوڑوں کی پناہ گاہ بن جاتے ہیں۔ انطالیہ میں موسم گرما میں ہر 2 منٹ بعد ایک پرواز اترتی ہے اور غیر ملکی سیاح جوق در جوق ترکی کے ساحلوں پر اپنے ملکوں کی طرح آزادی کےساتھ چھٹیاں مناتے اور قدرتی خوبصورتیوں سے محظوظ ہوتے ہیں۔
چونکہ ترکی میں سیکولر نظام ناٖفذ ہے اس لیے ترکی میں نماز ادا کرنے کے ساتھ ساتھ شراب نوشی کی بھی اجازت ہے۔ جس کی جو مرضی ہے وہ اپنی مرضی سے انتخاب کرے یہ بھی سچ ہے کہ وزیر اعظم رجب طیب اردوان ترکی میں ایمانداری اور قوانین کی بالا دستی کے چمپین ہیں اور قانون کی بالادستی کے لئے کچھ ایسے قانون بنائے ہیں جن پر ترک عوام سختی سے کا ر بند ہیں۔ ان اقدامات کے وقت رجب طیب ایردوان کے دماغ میں ملکی ترقی، امن اور خوش حالی کی سوچ پوشیدہ تھی۔
ان مقاصد کے حصول کے لیے انہوں نے ہر وہ کام کیا جس سے ملک میں خوشحالی امن اور ترقی آسکے۔ حتی ان کے حصول کے لئے وہ اسرائیل بھی گئے اسرئیلی صدر کو اپنے ملک میں دعوت بھی دی اور پارلیمنٹ میں خطاب بھی کرایا۔ عشق ممنوع اور میرا سلطان جیسے ڈراموں کی اجازت بھی دی اپنے ساحلوں کو سستی اور معیاری تفریح گاہ بھی بنانا پڑیں۔ انہوں نے کسی کی پرواہ نہ کی کیونکہ ترکی کو بزنس چاہیے تھا بھائی نہیں ۔
جبکہ ہم ترکی کو صر ف بھائی بنانے پر تلے ہیں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ بزنس کا دور ہے اگر آپ کے پاس بزنس سرمایہ اور کچھ نیا یا نئی ٹیکنیک ہے تو پوری دنیا ہمیں سر پر بٹھانے کو تیار ہے اور اگر ہماری جیبیں خالی ہیں تو سگا بھائی تو کیا باپ بھی منہ پھیر لے گا ترکی کو اسرائیل میں اپنا بزنس نظر آیا تو اس نے اسرائیل کے لئے اپنی باہیں کھول دیں ترکی کو اگر اسلام آباد یا لاہور میں بزنس نظر آتا ہے تو وہ وہاں آجاتے ہیں اور پھر جن سے بزنس کیا جاتا ہے تو اخلاقی روایات کا خیال تو رکھنا ہی پڑتا ہے ۔
پاکستان بھی ترکی جیسی ترقی کر سکتا ہے یہ ضروری نہیں کہ ترکی جیسی آزادیا ں یہاں بھی عام کر دی جائیں۔ ترکی میں یہ آزادیاں اس لئے ہیں کہ ترکی ایک ایسا ملک ہے جو آدھا یورپ اور آدھا ایشیا میں آتا ہے ۔ لہذااس خطے میں یورپی اور ایشیائی روایات کا بیک وقت وجود ملتا ہے۔ جبکہ پاکستان مکمل طور پر جنوبی ایشیاء کے اثر میں ہے پاکستان میں اگر مذہبی اجتماع اور تقاریر اور مذہبی مسلک کی بے باک تقاریر جوش و جذبے کو ہوا دینے والے بیانات پر پابندی لگا دی جائے اور فرقہ واریت بیانات کو کنٹرول کر لیا جائے تو حالات میں کافی حد تک تبدیلی آسکتی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم امریکہ اور اسرائیل کے خلاف بات بھی کرتے ہیں اور ہمارے لیڈر حضرات امریکہ کا دورہ بھی کرتے ہیں اور ہمارے مولوی حضرات اور لیڈران کے بچے پڑھنے کے لیے ان ممالک کا رخ بھی اختیار کرتے ہیں۔ دوسری جانب ہمارے لیڈر ان کے خلاف بیانات بھی جاری کرتے رہتے ہیں لیکن ہم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ اگر ہم کسی کا نام بگاڑیں گے ۔کسی کی عزت نہیں کریں گے تو کوئی ہماری عزت کیسے کرے گا ۔ ہم ترقی بھی کرنا چاہتے ہیں اور اپنے دل کی بھڑاس بھی نکالنا چاہتے ہیں تو یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں کیونکہ مثال مشہور ہے کر بھلا تو ہو بھلا ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں