نون حکومت کےخاتمےپرپاکستانی منڈیوں میں ڈالرکی آگ بھڑک اٹھی، ڈالرتاریخ میں پہلی بار121روپے تک جاپہنچا

معاشی ماہرین کے مطابق ملک میں سیاسی حکومت موجود نہ ہونے اور منڈیوں پر  نئی حکومت کی  گرفت ڈھیلی پڑ جانے کی وجہ سے  ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ڈالر بلیک کرنے والے کاروباری حلقوں کے وارے نیارے

990102
نون حکومت کےخاتمےپرپاکستانی منڈیوں میں ڈالرکی آگ بھڑک اٹھی، ڈالرتاریخ میں پہلی بار121روپے تک جاپہنچا

انٹربینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر نے اونچی اڑان بھری، انٹربینک میں ڈالر 5 روپے 38 پیسے مزید مہنگا ہوکر ملکی تاریخ کی نئی بلند ترین سطح 121 روپے پر جا پہنچا۔

ڈالر کے انٹر بینک ریٹ میں اضافے کے باعث کرنسی ڈیلرز نے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی فروخت بند کر دی۔7 دسمبر 2017ء کو انٹربینک میں ڈالر 105 روپے 54 پیسے پر تھااور اب 6 ماہ میں امریکی ڈالر 15 روپے 46 پیسے مہنگا ہوکر 121 روپے کی بلند ترین سطح پر جا پہنچا۔

ڈالر کا انٹربنک ریٹ بڑھنے کی وجہ بیرونی قرضوں میں اضافہ، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور درآمدات میں اضافہ بیان کی گئی ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے 8 ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ملک کی جی ڈی پی کے 4.8 فیصد تک پہنچ گیا ہے جبکہ درآمدات میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 17.3 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

6 ماہ میں ڈالر 15 روپے 46 پیسے مہنگا ہوگیا، جسے آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کا عندیہ قرار دیا جارہا ہے۔

27مارچ 2018 ء سے 115 روپے 50 پیسے پر خاموش بیٹھے ڈالر نے پھر چھلانگ لگائی اور انٹربینک مارکیٹ میں کاروبار کے دوران امریکی ڈالر 5 روپے 38 پیسے مہنگا ہوگیا، جس سے انٹربینک میں ڈالر 121 روپے کی بلند ترین سطح پر جا پہنچا۔

معاشی ماہرین کے مطابق ملک میں سیاسی حکومت موجود نہ ہونے اور منڈیوں پر  نئی حکومت کی  گرفت ڈھیلی پڑ جانے کی وجہ سے  ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر شدید دباؤ کا شکار ہیں اور ایک اندازے کے مطابق حکومت کو ہر ہفتے بیرونی قرضوں اور دیگر ادائیگیوں کی مد میں 20 سے 25 کروڑ ڈالر تک خرچ کرنے پڑ رہے ہیں۔

اس سے قبل بھی متعدد بار ڈالر کی قیمت میں اچانک اضافہ دیکھا جا چکا ہے جس سے مہنگائی کی سطح بھی بڑھ جاتی ہے اور خاص طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سمیت درآمدی اشیا کی قیمتوں میں قابلِ ذکر اضافہ ہوجاتا ہے۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ بیرونی ادائیگیاں اور کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر بنے ہیں، ماہانہ ایک ارب ڈالر کی ادائیگیاں زرمبادلہ ذخائرکو کم کررہی ہیں، جنہیں کم از کم 3ماہ کی درآمدات کے مساوی رکھنا ہے۔

معاشی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت کے بیرونی قرضوں کا حجم روپے میں بڑھ جاتا ہے، آج بھی ڈالر کے جھٹکے نے قرض کا بوجھ مزید 350ارب بڑھا دیا ہے، جس کو مزید نئے قرض لے کر ہی پورا کیا جائے گا اور اس کا بوجھ عوام پر ہی آئے گااور یہ سلسلہ نئی مضبوط سیاسی حکومت کے قیام تک وقفوں وقفوں سے جاری رہے گا۔



متعللقہ خبریں