امن معاہدے کے تحت ملکی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے طالبان قیدیوں کو رہا کریں: شاہ محمود قریشی

انہوں نے کہا کہ  صرف معاہدہ کافی نہیں رویے بھی درست کرنے ہوں گے ، قیدیوں کی رہائی یک طرفہ نہیں دونوں جانب سےہوگی، قیدیوں کے تبادلے پر صدر اشرف غنی کو فراخدلی سےغور کرنا چاہیے

1371109
امن معاہدے کے تحت ملکی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے طالبان قیدیوں کو رہا کریں: شاہ محمود قریشی

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغان صدر پر زور دیا ہے کہ امن معاہدے کے تحت ملکی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے طالبان قیدیوں کو رہا کریں۔

انہوں نے کہا کہ  صرف معاہدہ کافی نہیں رویے بھی درست کرنے ہوں گے ، قیدیوں کی رہائی یک طرفہ نہیں دونوں جانب سےہوگی، قیدیوں کے تبادلے پر صدر اشرف غنی کو فراخدلی سےغور کرنا چاہیے۔

شاہ محمود قریشی نے امریکا طالبان امن معاہدے کے بعد افغان حکومت کی جانب سے طالبان قیدیوں کی رہائی سے انکار پر ردعمل میں کہا ہے کہ دوحہ امن معاہدہ بہت بڑی پیش رفت ہے اور اس موقع کو گنوانا نہیں چاہیے، دوحہ پہلا قدم تھا اب اگلا قدم بین الافغان مذاکرات ہیں، افغان قیادت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سازگار ماحول پیدا کرے جس سے گفتگو آگے بڑھے، اعتماد سازی کے لیے دونوں فریقوں کو آگے بڑھانا چاہیے۔

وزیرخارجہ نے کہا کہ 20 سال کی جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوا،جنگ کوئی راستہ نہیں ، اب فریقین کو ایک دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کرناہوگی، افغان قیادت اور تمام دھڑوں کیلئے آ زمائش کا وقت ہے، پاکستان نیک نیتی سے چاہتا ہے معاملات سدھریں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام چاہتا ہے، پاکستان نے جو کردار ادا کرنا تھا وہ کیا اور دنیا نے اس کوسراہا، اس معاہدے پر اگلا قدم اٹھانا افغانوں کا کام ہے، آگے بڑھنے کیلئےافغان جواقدامات اٹھائیں گے پاکستان حمایت کرے گا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان سازگار ماحول پیدا کر سکتا ہے مگران کے فیصلے نہیں کر سکتا، امریکا طالبان معاہدے میں درج ہےکہ قیدیوں کاتبادلہ ہوگا، اشرف غنی کو چاہیے وہ معاہدے کی وضاحت امریکاسے مانگیں، زلمےخلیل زاد مذاکرات پر افغان قیادت کو آگاہ کرتے رہے ہیں۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی قیدیوں کا تبادلہ ہو ا ہے ، جب جنگ سے امن کی طرف بڑھتے ہیں توخیر سگالی کیلئے یہ کرنا پڑتا ہے، قیدیوں کی رہائی یکطرفہ نہیں دو طرفہ ہو گی ، ہٹ دھرمی سے کام لینا ہے تو بات آ گے نہیں بڑھ پائے گی۔

انھوں نے کہا کہ یہ ایک منطقی قدم ہے جو اٹھنا چاہیے، معاہدوں کے ساتھ رویوں کو بھی ٹھیک کرناہوں گے، رکاوٹیں ڈالنے والے تو پہلے بھی تھے ، اب سیاسی قیادت کا کمال یہ ہے کہ وہ ان کو نا کام کریں۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ قیدیوں کے تبادلےپر صدر اشرف غنی کو فراخدلی سے غور کرنا چاہیے، ماحول خراب کرنے والے ہمیشہ سےموجود تھے اور رہیں گے، ماضی میں بھی قیدیوں کے تبادلے ہوتے رہے ہیں، امن عمل کے دوران امریکہ صدر اشرف غنی کو گاہے بگاہے اعتماد میں لیتا رہا ہے اور ان سے مشاورت جاری رکھی گئی تھی، جنگ وجدل کوئی راستہ ہیں، مذاکرات ہی آخری حل ہیں۔

 

 

 

 



متعللقہ خبریں