وفاقی حکومت کی جسٹس سیٹھ وقار کوان کے عہدے سے سبکدوش کرنے کی تیاریاں

وفاقی حکومت نے جسٹس سیٹھ وقار کو فی الفور کام سے روکنے کا مطالبہ کردیا۔ وفاقی وزیرفروغ نسیم نے کہا کہ جسٹس وقار ذہنی طور ان فٹ ہیں،ایسے جج کو پاکستان کی سپریم کورٹ یا لاہور ہائیکورٹ کاجج ہونے کا کوئی اختیار نہیں

1326598
وفاقی حکومت کی جسٹس سیٹھ وقار کوان کے عہدے سے سبکدوش کرنے کی تیاریاں

جسٹس وقار ذہنی طور ان فٹ ہیں،ایسے جج کو سپریم کورٹ یا لاہور ہائیکورٹ کا جج ہونے کا کوئی حق نہیں،سپریم جوڈیشل کونسل سے درخواست کریں گے ان کو فوری کام کرنے سے روکا جائے۔ وفاقی وزیرفروغ نسیم، معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان اور شہزاد اکبرکی مشترکہ پریس کانفرنس

وفاقی حکومت نے جسٹس سیٹھ وقار کو فی الفور کام سے روکنے کا مطالبہ کردیا۔ وفاقی وزیرفروغ نسیم نے کہا کہ جسٹس وقار ذہنی طور ان فٹ ہیں،ایسے جج کو پاکستان کی سپریم کورٹ یا لاہور ہائیکورٹ کاجج ہونے کا کوئی اختیار نہیں ،جج کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل سے درخواست کریں گے ان کو فوری کام کرنے سے روکا جائے۔

وزیر قانون فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ایسے کسی جج کو پاکستان کے کسی کورٹ میں ہونے کا اختیار نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی جج کو اس قسم کی آبزرویشن دینے کا اختیار نہیں ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

اس طرح کے فیصلے سے عدالت کا وقار مجروح ہوا۔انہوں نے کہا کہ یہ ذہنی طور ان فٹ ہیں، ہم گزارش کرتے ہیں ان کو فوری کام سے روکا جائے۔سپریم جوڈیشل کونسل سے درخواست کریں گے اس جج کو کام کرنے سے روکا جائے۔اس موقع پرمعاون خصوصی برااحتساب شہزاد اکبرنے کہا کہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ چار سطری فیصلہ کے الفاظ کہاں سے آئے۔ پیرا 66 پوری دنیا میں شرمساری کا باعث بنا۔اس میں آئین اور قانون کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔عدالت کا کام قانون بنانا نہیں بلکہ عملدرآمد کروانا ہوتا ہے۔ قانون کے رکھوالوں کا کام ہم آہنگی پیدا کرنا ہوتاہے تقسیم پیدا کرنا نہیں ہوتا۔ ملزم کی غیرموجودگی میں سزا نہیں سنائی جاسکتی لیکن اس کو نظراندازکیا جارہا ہے۔پرویز مشرف کے کیس کو عجلت میں نمٹایا گیا۔

فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ یہ جج صاحب نے بہت ہی غلط اور غیر مثالی آبزرویشن دی ہے۔ پرویز مشرف کی لاش کو 3 دن تک ڈی چوک پر لٹکایا جائے، یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس طرح کا فیصلہ دینے کی کیا ضرورت تھی۔

وزیر قانون کا کہنا تھا کہ حکومت مطالبہ کرتی ہے جسٹس وقار سیٹھ کو کام کرنے سے روکا جائے۔

انہوں نے کہا کہ خصوصی عدالت آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کررہی تھی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فیصلے کا پیرا 66 بہت اہم ہے، اس پیرا میں لکھا گیا کہ مشرف کوگرفتار کیا جائے، اور انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

اس سے قبل گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ حکومت ہر سازش کو ناکام بنائے گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے بیرونی قوتیں سازشیں کر رہی ہیں۔

فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف ریفرنس موو کیا جائے۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے مشرف کیس کے تفصیلی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ آپ کا اپنے ادارے اور دوسرے ادارے پر خودکش حملہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ قانون کے رکھوالوں پر فرض بنتا ہے کہ ہم آہنگی پیدا کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ نے تو یہ فیصلہ کرکے سارے کیس کو خراب کردیا، یہ کس پر حملہ ہے؟

تفصیلی فیصلے کے پیراگراف 66 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پیرا 66 پوری دنیا میں ہماری شرمساری کا باعث ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اور بھی سنجیدہ تحفظات ہیں، ہم اس کیس میں شریک ملزمان کو شامل کرناچاہتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت ریفرنس دائر کرنے کے علاوہ فیصلے کے خلاف اپیل میں جائے گی۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ یہ سماعت پرویز مشرف کی غیر موجودگی میں نہیں ہو سکتی تھی وہ بھی ہوگئی۔

انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کے پیچھے تمام محرکات کو دیکھنے کی ضرورت ہے اور ہم انہیں دیکھ رہے ہیں، یہ لمحہ فکریہ ہے، فیصلے کے آخری مراحل کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت ہی سنجیدہ معاملہ ہے، بین الاقوامی قانون کی دھجیاں اڑاکر رکھ دی گئیں۔

انہوں نے بھی مطالبہ کیا کہ ایسا فیصلے دینے والے جج کو فی الفور کام سے روکا جانا چاہیے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ پیرا 66 میں تو قانون اور آئین کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے، 21 ویں صدی میں ایسی آبزرویشن دینے کا اختیار نہیں۔

وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ کوئی بھی جج ایسی آپزرویشن دیتا ہے تو یہ آئین و قانون کے خلاف ہے، سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ جسٹس وقار کو کام کرنے سے روک دیا جائے۔



متعللقہ خبریں