اب بول سکتے ہو تو بول کے دکھاو،لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کی بولتی بند کردی

لاہور ہائی کورٹ نےسابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی عدلیہ مخالف اور توہین آمیز تقاریر کو نشر کرنے پر عبوری پابندی عائد کردی

952851
اب بول سکتے ہو تو بول کے دکھاو،لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف  کی بولتی بند کردی

لاہور ہائی کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی عدلیہ مخالف اور توہین آمیز تقاریر کو نشر کرنے پر عبوری پابندی عائد کردی۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نےمیاں نواز شریف،انکی صاحبزادی مریم نواز سمیت مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی عدلیہ مخالف تقاریر پر پابندی کیلئے دائر درخواستوں پر پیمراکو حکم دیا ہے کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز سمیت لیگی رہنماؤں کی عدلیہ مخالف تقاریر کیخلاف درخواستوں کا 15روز کے اندر فیصلہ کرے اور اس دوران اس بات کو سختی سے یقینی بنایا جائے کہ عدلیہ مخالف اور تضحیک آمیز تقاریر سمیت توہین عدالت پر مبنی کوئی بھی مواد نشر نہ ہو۔

کیس سماعت کے دوران اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ ’میرا کام عدلیہ مخالف تقاریر کا معاملہ ریکارڈ پر لانا ہے جبکہ آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تحت آزادی اظہار رائے کا حق ہے اور آئین کا آرٹیکل 19 اے درست تنقید کا حق دیتا۔

دوران سماعت وزیر اعظم کے مشیر اور وکلاء کا بنچ کیساتھ سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ فل بنچ نے بنچ کے سربراہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی بنچ میں شمولیت کیخلاف میاں نواز شریف کی درخواست مسترد کر دی۔

درخواست گزار کے وکیل اظہر صدیق نے موقف اختیار کیاکہ نواز شریف اور مریم نواز سمیت16حکومتی شخصیات عدلیہ مخالف تقاریر کررہے ہیں لیکن پیمرا کوئی کارروائی نہیں کر رہی پیمرا کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیئےکہ پیمرا قانون کے تحت اقدامات کررہا ہے جو درخواستیں آئی ہیں ان میں سے بعض تکنیکی بنیادوں پر مسترد ہوچکی ہیں ۔

جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ فیئر تنقید کا آئینی حق کسی قانون و ضابطے سے مشروط ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہر کوئی اٹھ کر عدالتی معاملات اور فیصلوں کو فیئر تنقید کے نام پر تنقید کا نشانہ بنائے۔

عدالت نے فریقین کے ابتدائی دلائل مکمل ہونے کے بعد نواز شریف سمیت 14 لیگی رہنمائوں کیخلاف توہین عدالت کی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئےعدلیہ مخالف تقاریر سمیت ہر قسم کا توہین عدالت پر مبنی مواد نشر کرنے سےروکنے کا حکم دے دیا اور پیمرا کو حکم دیا کہ عدلیہ مخالف تقاریر روکنے کے خلاف درخواستوں پر 15 روز میں فیصلہ کیا جائے۔

 



متعللقہ خبریں