شام میں خانہ جنگی کی 5 سالہ رپورٹ

شام میں ابتک ہلاکتوں کی تعداد 4 لاکھ ستر ہزار کے لگ بھگ ہے

451792
شام میں خانہ جنگی کی 5 سالہ رپورٹ

شام میں جھڑپیں 15 مارچ سن 2011 کو درعا میں حکومت مخالف مظاہروں کی شکل میں شروع ہوتے ہوئے بعد ازاں ملکی انتظامیہ۔ مخالفین۔ القاعدہ کی ذیلی شاخ النصرہ محاذ، داعش دہشت گرد تنظیم اور وائے پی جی ملیشیا گروپ کے درمیان کسی خانہ جنگی کی شکل میں جاری ہیں۔ اقوام متحدہ نے جنگ چھڑنے سے لیکر ابتک ہلاک ہونے والوں کی تعداد کے کم ازکم اڑھائی لاکھ ہونے کا تخمینہ لگایا ہے۔ تا ہم شامی سیاسی تحقیقاتی مرکز نے 10 فروری کو جاری کردہ ایک رپورٹ میں اس تعداد کے 4 لاکھ 70 ہزار سے تجاوز کرنے کا انکشاف کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 5 ملین سے زائد افراد نے ترکی ، لبنان عراق ۔ اردن اور مصر میں پناہ لے رکھی ہے۔ ان میں سے ترکی 2٫7 ملین شامی مہاجرین کے ساتھ سر فہرست ہے۔

شام میں شہریوں کی ہلاکتوں کے اعداد و شمار کچھ یوں ہیں:

اسد انتظامیہ کی قوتیں: 95٫06 فیصد شرح کے ساتھ 1 لاکھ 83 ہزار

مسلح مخالف گروہ: 2 ہزار 8 سو 46

نا معلوم گروہ: 2 ہزار 17

داعش: 1 ہزار 9 سو نواسی

امریکی اتحادی قوتیں: 1 ہزار 9سو نواسی

روسی قوتیں: 1 ہزار 507

وائے پی جی : 403

نصرہ محاذ: 354

شام میں سن 2011 میں شروع ہونے والی جنگ کے بعد ابتک اندازً 8 لاکھ 13 ہزار مہاجرین نے یورپی یونین کے ملکوں کو پناہ دینے کی درخواست کی ہے، ہزاروں کی تعداد ابھی بھی ان ملکوں میں داخل ہونے کی کوشش میں ہے، جو کہ مہاجرین کے کسی عالمی بحران کی ماہیت اختیار کر چکی ہے۔ جس بنا پر شامی بحران کا حل تلاش کرنا لازم و ملزوم بن چکا ہے۔

سن 2015 میں ملکی آبادی کا 45 فیصد مہاجر کی زندگی بسر کر رہا ہے، ہر چار اسکولوں میں سے ایک تباہ ہو چکا ہے، یا پھر انہیں کسی دوسرے مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

اسکول جانے کی عمر کو پہنچنے والے بچوں کا 45٫2 فیصد اسکول جانے سے قاصر ہیں۔

عمر کی حد سن 2010 میں 70 سال تھی جو کہ اب گرتے ہوئے 55 ہو گئی ہے۔

13٫8 ملین افراد کی نوکریاں ختم ہو گئیں اور ہر تین کنبوں میں سے ایک پر قرضوں کا بوجھ ہے۔ غربت کی شرح 85 فیصد ہے اور آبادی کا 69٫3 فیصد انتہائی مفلسی کی زندگی گزار رہا ہے۔



متعللقہ خبریں