پاکستانی معاشرے میں ہم جنسوں کی شادی: ایک لمحہ فکریہ

بی بی سی نے حال ہی میں ایک ایسی دستاویزی فلم تیار کی ہے جس میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ گویا پاکستان میں بھی ہم جنس پرستی معمول کی صورت اختیار کرچکی ہے

398276
پاکستانی معاشرے میں ہم جنسوں کی شادی: ایک لمحہ فکریہ

مغرب اخلاقی بے راہ روی کے اس درجے کو پہنچ چکا ہے کہ اکثر مغربی ممالک میں ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہوچکا ہے، لیکن ہمارے لئے تشویشناک امر یہ ہے کہ اس گمراہی کو ہمارے ملک میں بھی عام کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔
بی بی سی نے حال ہی میں ایک ایسی دستاویزی فلم تیار کی ہے جس میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ گویا پاکستان میں بھی ہم جنس پرستی معمول کی صورت اختیار کرچکی ہے۔
بی بی سی نےاس دستاویزی فلم کی عکس بندی کے لئے اپنے عملے کو پاکستان بھیجا جس نے کراچی شہر کے کچھ مغرب پرست طبقات کے انٹرویو کئے اور ایک ہم جنس پرست جوڑے کی شادی کی کوششوں کو موضوع بنایا۔
فلم بنانے والوں نے اپنی شرمناک خواہشات کو حقیقت کے طور پر پیش کرنے کے لئے خواجہ سراوں کے ایک گروہ کی زندگی اور ان کے شب و روز دکھائے ہیں۔ اس فلم میں کامی اور سیڈ نامی ایک خواجہ سراجوڑے کو دکھایا گیا ہے کہ جو اپنی شادی کے لئے کوشاں نظر آتا ہے۔


یہ جوڑا بتاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور شادی کرنا چاہتے ہیں لیکن پاکستان کا قانون اور معاشرہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔
کامی نامی خواجہ سرا بتاتا ہے کہ انہیں معلوم ہوا ہے کہ جنوبی افریقہ میں کوئی امام ہے جو کہ مسلمان ہم جنس پرست جوڑوں کی شادی کو جائز قرار دیتا ہے۔
وہ کہتا ہے کہ وہ اب کوشش کررہے ہیں کہ جنوبی افریقہ جائیں اور وہاں اس امام کی خدمات حاصل کرتے ہوئے شادی کے بندھن میں بندھ جائیں۔
فلم میں یہ بیہودہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان میں اس طرح کے ہم جنس پرست جوڑوں کی کثرت ہے جو شادی کرنا چاہتے ہیں لیکن پاکستان جیسے ملک میں اس بات کا کھلا اعتراف کرنے سے ڈرتے ہیں۔ اس دستاویزی فلم کو دیکھ کر یہ اندازہ باآسانی لگایاجاسکتا ہے کہ اسے تیار کرنے والوں نے پاکستانی معاشرے کے حقیقی نظریات کو چھپایا ہے اور اپنے مذموم مقصد کے تحت ایک مختصر اور خفیہ گروپ کو دکھا کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں بھی ہم جنس پرستی کا شرمناک رویہ عام پایا جاتا ہے۔

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں