دو براعظم ایک شہر استنبول: غلام رسول اور حماد کیانی کے قلم سے

دو براعظم ایک شہر :استنبول

204476
دو براعظم ایک شہر استنبول: غلام رسول اور حماد کیانی کے قلم سے

غلام رسول سیلاوی:
استنبول آبنائے باسفورس علاقے میں دونوں جانب واقع ہے اس طرح وہ دو
براعظموں میں واقع دنیا کا واحد شہر ہے ۔ شہر کا مغربی حصہ یورپجبکہ
مشرقی حصہ ایشیامیں ہے ۔ شہری حدود ایک ہزار 539 مربع کلومیٹر تک ہیں
جبکہ صوبہ استنبول 5 ہزار 220مربع کلومیٹر پرمحیط ہے ۔
ارضیات
استنبول شمالی اناطولیہکی زلزلے کی پٹی کے قریب واقع ہے جو شمالی
اناطولیہ سے بحیرہ مرمرہتک جاتی ہے ۔ افریقی اور یوریشین پلیٹ یہی پر
ملتی ہیں۔ اس زلزلے کی پٹی کے باعث خطہ زلزلوں کا مرکز ہے ۔ 1509ءمیں ایک
زلزلے کے نتیجے میں سونامی پیدا ہوا جس میں 10ہزار لوگ ہلاک اور 100 سے
زائد مساجد تباہ ہوئیں۔ 1766ءمیں ایوب مسجدمکمل طور پر شہید ہوگئی۔
1894ءکے زلزلے میں استنبول کے ڈھکے ہوئے بازار کا بیشتر حصہ تباہ ہوگیا۔
اگست 1999ءکے تباہ کن زلزلے کے نتےجد میں 18 ہزار اور 2001ءکے موسم سرما
میں 41 افراد ہلاک ہوئے ۔
شہر میں موسم گرما گرم اور پرنم جبکہ سردیوں میں بارش اور کبھی کبھار برف
باریکے ساتھ شدید سردی پڑتی ہے ۔ شہر میں سالانہ اوسطاً 870 ملی میٹر
بارش پڑتی ہے ۔ موسم سرما کے دوران اوسطاً درجہ حرارت 7 سے 9 ڈگری سینٹی
گریڈ تک رہتا ہے جس کے دوران برف باری بھی عموماً ہوتی رہتی ہے ۔ جون سے
ستمبر تک موسم گرما کے دوران دن میں اوسطاً درجہ حرارت 28ڈگری سینٹی گریڈ
رہتا ہے ۔
سال کاگرم ترین مہینہ جون ہے جس میں اوسط درجہ حرارت 23.2ڈگری سینٹی گریڈ
ہے جبکہ سال کا سرد ترین مہینہ جنوری ہے جس کا اوسط درجہ حرارت 5.4 ڈگری
سینٹی گریڈ ہے ۔ شہر میں سب سے زیادہ حرارت اگست 2000ء میں 40.5ڈگری
سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔
شہر کی تنظیم
استنبول کی بلند عمارات کا ایک دلکش نظارہ
استنبول کے اضلاع کو تین اہم علاقوں میں تقسیم کیا گیا ہے :
قدیم قسطنطنیہکا تاریخی جزیرہ نما امینونو اور فاتح کے اضلاع پرمشتمل ہے
۔ عثمانی دور کے اواخر میں استنبول کہلایا جانے والا یہ علاقہ شاخ زریںکے
جنوبی ساحلوں پرقائم ہے جو قدیم شہر کے مرکز کو یورپی علاقے کے شمالی
علاقوں سے جدا کرتی ہے ۔ اس جزیرہ نما کے جنوب کی جانب سے بحیرہ مرمرہاور
مشرق میں باسفورسنے گھیرا ہوا ہے ۔
شاخ زریں کے شمال میں تاریخی بے اوغلو اور بشکطاش کے اضلاع واقع ہیں جہاں
آخری سلطان کا محل واقع ہے ۔ ان کے بعد باسفورس کے ساحلوں کے ساتھ ساتھ
اورتاکوئے اور بیبک کے سابق دیہات واقع ہیں۔ باسفورس کے یورپی اور
ایشیائی دونوں جانب استنبول کے امراء نے پرتعیش رہائشی مکانات تعمیر
کررکھے ہیں جنہیں یالی کہا جاتا ہے ۔ ان مکانات کو موسم گرما کی رہائش کے
طور پراستعمال کیا جاتا ہے ۔
اسکودار اور قاضی کوئے شہر کے ایشیائی حصے ہیں جو دراصل آزاد شہر تھے ۔
آج یہ جدید رہائشی اور کاروباری علاقوں پر مشتمل ہے اور استنبول کی
تقریباً ایک تہائی آبادی یہاں رہائش پذیرہے ۔
دفاتر اور رہائش کی حامل بلند عمارات یورپی حصے کے شمال علاقوں میں واقع
ہیں جن میں خصوصاً لیونت، مسلاک اور اتیلر کا علاقہ شامل ہیں جو
باسفورساور فاتح سلطان محمد پلوںکے درمیان واقع ہے ۔
آبادی میں اضافہ
اورتاکوئے مسجداور باسفورس پل، رات کے وقت
استنبول کی آبادی 1980ءسے 2005ءکے 25سالہ عرصے کے دوران تین گنا سے بھی
زیادہ ہوگئی ہے ۔ اندازاً 70فیصد سے زائد شہری استنبول کے یورپی حصے میں
جبکہ 30 فیصد ایشیائی حصے میں رہتے ہیں۔ جنوب مشرقی ترکی میں بے روزگاری
میں اضافے کے باعث خطے کے لوگوں کی اکثریتاستنبولہجرت کرگئی جہاں وہ شہر
کے نواحی علاقوں غازی عثمان پاشا، ضیا گوک الپ و دیگر میں قیام پذیر
ہوگئ0

تعلیم
ترکی میں اعلیٰ تعلیم کے بہترین اداروں میں سے چند استنبول میں واقع ہیں
جن میں سرکاری و نجی جامعات بھی شامل ہیں۔ اکثر معروف جامعات سرکاری ہیں
لیکن حالیہ چند سالوں میں نجی جامعات کی تعداد میں بھی اضافہ ہواہے ۔
معروف سرکاری جامعات میں استنبول تکنیکی جامعہ، باسفورس جامعہ، غلطہ
سرائے جامعہ، استنبول جامعہ، مارمرہ جامعہ، یلدیز تکنیکی جامعہ اور معمار
سنان فنون لطیفہ جامعہ شامل ہیں۔
لائبریریاں
*.سلیمانیہ کتب خانہ
*.استنبول چلک گولرسوئے کتب خانہ
*.توپ قاپی محل کتب خانہ
*.آرکیولوجیکل میوزیم کتب خانہ
*.اتاترک کتب خانہ
*.گوئٹے انسٹیٹیوٹ کتب خانہ
*.امریکن کتب خانہ
اقتصادیات
لیونت میں قائم بلند عمارات
استنبول اپنے بہترین محل وقوع اور زمینی و بحری راستوں کے بین الاقوامی
پر موجودہ ہونے کے باعث ہمیشہ ہی سے ترکی کی اقتصادیات کا مرکز رہا ہے ۔
ترکی کے صنعتی مزدوروں کا 20 فیصد استنبول میں روزگار سے وابستہ ہے جبکہ
شہر ترکی کے صنعتی شعبے کا 38 فیصد حصہ ادا کرتا ہے ۔ علاوہ ازیں شہر
ترکی کی تجارت کا 55 فیصد اور تھوک تجارت کا 45 فیصد اور مجموعی قومی
پیداوار کا 21.2 فیصد پیدا کرتا ہے ۔ ملک بھر میں محصولات کا 40 فیصد حصہ
استنبول ادا کرتا ہے اور ترکی میں قومی مصنوعات کا 27.5 فیصد تیار کرتا
ہے ۔
مسلک میں قائم بلند عمارات1990ء کی دہائی میں ا ... 1999ءکو زلزلے سے لگا
جس کے نتےج میں اس کے جی ڈی پی میں دو فیصد کمی واقع ہوئی۔
اس کے باوجود استنبول کی معیشت حالیہ چند سالوں سے دوبارہ بہتری کی جانب
گامزن ہے ۔ استنبول ترکی کا صنعتی مرکز ہے ۔ ترکی کے کئی بڑے کارخانے
یہیں واقع ہیں۔ استنبول اور اس کے نواحی صوبہ جات کپاس، پھل، زیتون کا
تیل، ریشم اور تمباکو پیدا کرتے ہیں۔ شہر کی اہم مصنوعات میں غذائی
مصنوعات، کپڑا، تیل، ربڑ، دھاتی اشیاء ، چمڑے کی اشیائ، کیمیکل، برقی
مصنوعات، شیشہ، مشینری، کاغذ اور الکوحل کے مشروبات شامل ہیں۔ شہر میں
گاڑیاں اور ٹرک بھی اسمبل کئے جاتے ہیں۔
استنبول کی معیشت کا ایک اہم شعبہ سیاحت بھی ہے ۔ شہر میں ہزاروں ہوٹل
اور سیاحت متعلقہ صنعتیں موجود ہیں۔
ذرائع نقل و حمل
شہر قومی و بین الاقوامی طویل الفاصلاتی ذرائع نقل و حمل کا مرکز ہے ۔
شہر میں دو بین الاقوامی ہوائی اڈے قائم ہیں۔ بڑا ہوائی اڈہ اتاترک بین
الاقوامی ہوائی اڈہمرکز شہر سے 24 کلومیٹر دور واقع ہے ۔ تعمیر کے وقت یہ
شہر کے یورپی حصے کے ایک کونے میں تھا لیکن اب شہر کے اندر قائم ہے ۔
جدید ہوائی اڈہ صبیحہ گوکچن ہوائی اڈہایشیائی علاقے سے 20 کلومیٹر مشرق
جبکہ یورپی علاقے سے 45 کلومیٹر دور مشرق میں واقع ہے ۔


حماد کیانی:


دو بر اعظموں کے سنگم پر واقع استنبول شہر پوری دنیا میں معروف ہے۔ اپنے بے مثل حسن، دلکشی و رعنائی اور اہم محل وقوع کی وجہ سے اس شہر کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔ قسطنطنیہ کی عظمت رفتہ ہو کہ جدت پسندی کا موجودہ امتزاج، استنبول اپنی شان و شوکت کے لحاظ سے یورپ اور ایشیا کے تمام شہروں سے ممتاز ہے۔ باسفورس کی خوبصورت آبی گزر گاہ دو سمندروں کا نقطہ اتصال ہے اور فاصلے سمیٹنے کی ایک خوبصورت کوشش بھی۔ ترکی اور بالخصوص استنبول کا یہی وہ طرہ امتیاز ہے جو اسے ایشیا اور مشرق وسطٰی میں ایک عظیم قائدانہ کردار کی خلعت پہناتا ہے۔ دنیا بھر کے سیاحوں کی پسندیدہ ترین منزل استنبول میں پر شکوہ مساجد بھی ہیں اور رومن دور کے گرجا گھر بھی جو کہ مذہبی ہم آہنگی اور روشن خیالی کے لازوال استعارے ہیں۔ یہ شہر جس کا ایک پاؤں یورپ میں اور دوسرا ایشیا میں ہے، تمام ملکوں کو تہذیبوں کے درمیان مکالمے کی دعوت دیتا ہے۔ ترقی، ثقافت اور جدت کا یہ نگینہ جلد ہی پوری دنیا کی توجہ کا محور ہو گا۔

اور آخر میں استنبول کی نذر کچھ فی البدیہہ اشعار

استنبول، اے استنبول تیری ہر ادا نرالی
کس شدت سے تو نے اپنی طلب کرا لی
نگاہیں تیری دید کے شوق سے ہیں بے تاب
جانے کب ملے گا تیرا حسن بے حساب
چھو کر تیری ارض کو ملے گا قرار
جب یہ دیوانہ بنے گا تیرا خاکسار
دل میں ہے مراد کہ تیرا جلوہ دیکھوں
ترے حسن کے موتیوں سے دامن بھر لوں
استنبول تری ترقی کا گواہ ہے ایک زمانہ
یورپ و ایشیا کا اس کے سامنے شرمانا
دعا ہے لذت شوق ہو پوری ہماری
استنبول کی چھانوں خاک ساری


 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں