ہم شام میں محفوظ علاقوں کی تعداد میں اضافہ کرنا جاری رکھیں گے: صدر ایردوان

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جیسے عالمی امن اور استحکام کے ضامن ادارے عالمی امن کی بجائے گنی چُنی قوتوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے خدمات ادا کر رہے ہیں: صدر رجب طیب ایردوان

1055323
ہم شام میں محفوظ علاقوں کی تعداد میں اضافہ کرنا جاری رکھیں گے: صدر ایردوان

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ ہم شام میں محفوظ علاقوں کی تعداد میں اضافہ کرنا جاری رکھیں گے۔

صدر رجب طیب ایردوان نے ترکی کے مقامی وقت کے مطابق رات گیارہ بجے  کے قریب امریکہ کے شہر نیویارک میں ترک۔امریکن قومی رہنمائی کمیٹی TASC کی طرف سے منعقدہ تقریب میں ترک اور مسلمان کمیونٹی کے ساتھ خطاب کیا۔

انہوں نے کہا کہ شام میں خانہ جنگی کی وجہ سے   ترکی میں پناہ لینے والے شامی مہاجرین میں سے 2 لاکھ 60 ہزار  اپنے وطن واپس لوٹ گئے ہیں۔ حالیہ ادلب بحران  کی طرح ہم نے ہمیشہ سے  شہریوں کو نقصان سے بچانے کے لئے بھاری ڈپلومیٹک کوششیں کی ہیں اور اب ہمیں ان کوششوں کا پھل ملنا شروع ہو گیا ہے۔

صدر ایردوان نے کہا کہ آنے والے دنوں میں ہم دریائے فرات  کے مشرق سمیت شام میں محفوظ علاقوں کی تعداد میں اضافہ کرنا جاری رکھیں گے۔ ہم اپنے ملک کی سلامتی  کے لئے خطرہ تشکیل دینے والی دہشت  گردی  کے خاتمے  تک اور شام کے مستقبل کو نشانہ بنانے والے جتھوں کی جڑیں اکھاڑنے تک جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔

مسئلہ فلسطین  کے بارے میں بات کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ ہم اپنے قبلہ اوّل کو   قابضوں اور فلسطینیوں  کے خلاف حکومتی دہشت گردی کرنے والوں کے حرص و طمع کے حوالے نہیں کریں گے۔ اسرائیلی اور امریکی  انتظامیہ  کی طرف سے بیت المقدس کی عزت و ناموس کو پاوں تلے روندنے  والی کاروائیوں کے خلاف ڈپلومیسی میں ہماری جدوجہد اعلیٰ ترین سطح پر جاری رہے گی۔

روہینگیا مسلمانوں کی المیہ صورتحال کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ ان تمام مسائل کے ایک بند گلی میں داخل ہونے کی وجہ سے یقیناً ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل  جیسے عالمی امن اور استحکام کے ضامن اداروں کی بے بسی کو قبول کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں یہ ادارے اپنی ساخت  کی ضرورت کے تحت زیادہ تر عالمی امن کی بجائے گنی چُنی قوتوں  کے مفادات کے تحفظ کے لئے خدمات ادا کر رہے ہیں۔

صدر ایردوان نے کہا کہ ہمارا مذہبی اور نسلی فرق  ہمارے لئے باہمی جھگڑوں  اور برتری   کا وسیلہ نہیں ہے بلکہ ہم اسے اُمت کی رنگا رنگی  اور ثروت کے طور پر دیکھتے ہیں اور ہم دیگر  مذاہب کے پیروکاروں کو بھی دھتکارے بغیر انسانیت کی مشترکہ  اقدار پر متحد ہونے کے راستے تلاش کریں گے۔

حالیہ دنوں میں امریکی مسلمانوں کی سیاست اور متوقع انتخابات  کے لئے بڑھتی ہوئی دلچسپی پر ممنونیت کا اظہار کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ  ماہِ نومبر میں متوقع انتخابات  کے بعد ہم انشاءاللہ اپنے بہت سے بھائیوں کو نمائندگی اور فیصلہ میکانزم  میں  بھی دیکھیں گے۔

بعد ازاں صدر ایردوان نے TURKEN وقف  کے روایتی پریمئیر اعشائیے میں شرکت کی اور تقریب سے خطاب میں کہا کہ TURKEN وقف   صرف ترکی سے آنے والے طالبعلموں کی تعلیمی، سماجی اور علمی کاروائیوں میں ہی کردار ادا نہیں کر رہا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ترک اور امریکن سول سوسائیٹوں  کے باہمی اتحاد کو  مضبوط بنانے میں بھی ایک موئثر پلیٹ فورم کا فریضہ ادا کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ عالم اسلام کا باہمی جھگڑوں اور خانہ جنگیوں کے حوالے سے ایجنڈے پر آنا  نہایت تکلیف دہ  ہے۔ اس وقت عالم اسلام کو حقیقی معنوں میں ایک مشکل دور کا سامنا  ہے اور ہماری انسانیت  اور بھائی چارہ ایک سخت امتحان سے گزر رہا ہے۔ وہ شہر جو صدیوں تک علم و عرفان کے حوالے سے پہچانے جاتے   رہے آج خون اور آنسو ان کا حوالہ بن گئے ہیں۔ موصل  کا وہ کتب خانہ جو صدیوں تک علم کے پیاسوں کی پیاس بجھاتا رہا آج قابضوں کے ہاتھوں حقیقی معنوں میں ایک کھنڈر کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ بغداد کتب خانے کی ہزاروں نادر کتابوں کو یا تو تباہ کر دیا گیا ہے یا چوری کر کے بیرون ملک پہنچا دیا گیا ہے۔ آج  حلب، دمشق ، طرابلس   اور صنعاء جیسے علم کے شہروں کا جھڑپوں اور خانہ جنگیوں کی وجہ سے پہچانا جانا نہایت تکلیف دہ ہے۔

دہشتگرد تنظیموں کے خلاف ترکی کی جدوجہد کے بارے میں بات کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ ترکی کے داعش اور پی کے کے جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جاری جائز آپریشنوں پر تنقید کرنے والے ریاستی دہشت گردی  کرنے والی حکومتوں کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا رہے۔

جو ترکی پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ،   اسرائیل کے ہاتھوں قتل  عام کا موضوع  سامنے آنے پر انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح کے روّیے کا مشاہدہ  ہم گذشتہ 7 سال سے  شام میں کر رہے ہیں جب بھی عالمی طاقتیں جنگوں کے بارے میں بات کرتی ہیں تو صرف کیمیائی اسلحے کا ذکر کرتی ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیمیائی اسلحے سے کتنے افراد ہلاک ہوئے ہیں؟ ایک  ہزار، دو ہزار  یا پانچ ہزار۔  لیکن روایتی  اسلحے کے ساتھ  کتنے افراد ہلاک ہو چکے ہیں؟ لاکھوں افراد ۔ لیکن ان لاکھوں افراد کی ہلاکت پر ان عالمی طاقتوں کے منہ سے ایک حرف تک نہیں نکلتا۔



متعللقہ خبریں