ابراہیم قالن کتے قلم سے

مسلم اقوام اور ان کی زبو حالی

831655
ابراہیم قالن کتے قلم سے

مسلم اقوام آج کل بہت سے اندرونی اور بیرونی مسائل سے دوچار ہیں۔ اگرچہ بظاہر یہ مسائل بہت شدید اور سخت ہیں تاہم یہ مکمل طور ناقابل حل نہیں۔ ان مسائل کا سامنا کرنے اور حل تلاش کرنے کے لیے ایک سنجیدہ طرز فکر اپنانے کی ضرورت ہے۔ مسلمان ممالک تنہا نہیں ہیں۔ وہ موجودہ عالمی نظام کا حصہ ہیں جو بلاشبہ غیر منصفانہ، ابنارمل اور تعصب سے بھرپور ہے۔

نوآبادیاتی نظام کا ورثہ ابھی تک زندہ ہے اور مسلم ممالک کو مسلسل اپنے تسلط میں رکھے ہوئے ہے۔ طاقت، اختیار اور پراکسی وارز کی عالمی دوڑ کی قیمت ان ممالک کو بے سکون حال اور بے یقین مستقبل کی صورت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔

 

ہمارے ہاں اکثر ان تمام مسائل کا ذمہ دار بیرونی مداخلت کو ٹھہرایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا کے خود پیدا کردہ مسائل بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ معاشروں کی اندرونی تقسیم، دور اندیش لیڈر شپ کے بحران، بدترین طرز حکومت، قدرتی وسائل کے بے جا استعمال، نسلی قومیت اور مذہبی فرقہ واریت جیسے مسائل نے ان معاشروں کے حقیقی جوہر کو دھندلا کر انھیں عالمی طاقتوں کے استحصال کے لیے ترنوالہ بنا رکھا ہے۔ سیاسی اور معاشی بحران کی بنیادیں فکری بحران مین پیوست ہیں۔ روایت اور جدت میں عدم توازن شناخت اور انفرادی کردادر سے جڑے تمام مسائل کو جنم دے رہا ہے۔ گھروں میں پالی گئی دہشت گردی اور بے رحم بنیادپرستی، جسے مختلف عوامل اور مقتدر اداروں کی پشت پناہی حاصل رہی، نے نہ صرف مسلم دنیا کو شرمندگی میں دھکیل رکھا ہے بلکہ بہت سی زندگیوں اور بہتر مستقبل کی امیدوں کو بھی داؤ پر لگایا ہے۔

دنیا میں موجود قدرتی وسائل مثلا گیس، تیل، معدنیات اور جنگلات کا ایک قابل ذکر حصہ مسلم ممالک کے قبضے میں ہے۔ امریکہ، یورپ اور جاپان جیسے خطوں کے مقابلے میں اسلامی معاشرے کی آبادی کا زیادہ حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے لیکن عالمی جی ڈی پی کی پیداوار میں ان ممالک کا کردار بہت کم ہے۔ دنیا کی کل آبادی کا 21 فیصد یعنی تقریبا ڈیڑھ ارب مسلم ممالک پر مشتمل ہے تاہم عالمی جی ڈی پی کا صرف 5 فیصد ان ممالک سے حاصل ہوتا ہے۔ مسلم ممالک میں اوسط بجٹ 5000 ڈالر فی کس ہے جو بیرونی دنیا کے فی کس بجٹ یعنی 13000 ڈالر سے قریبا تین گنا کم ہے۔ صرف چند مسلمان ملک ترقی کا قابل عمل ماڈل رکھتے ہیں اور غربت پہ قابو پانے اور وسائل کی بلاتفریق تقسیم کو یقینی بنانے میں کسی حد تک کامیاب ہیں۔ ہمارے ہاں واقع ایسی یونیورسٹیوں کی تعداد تو انگلیوں پہ گنی جاسکتی ہے جو جامعات کی عالمی رینکنگ میں ٹاپ پانچ سو میں جگہ بنانے میں کامیاب ہیں۔ ان جامعات میں بھی علمی اور سائنسی تحقیق تشویشناک حد تک کم ہے۔

مجموعی طور پہ یہ اطیمنان بخش تصویر نہیں ہے اور اب شاید یہ ضروری ہوچکا ہے کہ ہم کسی سطح سے اس صورتحال کے تدارک کا آغاز کریں۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ صورتحال خوش گوار نہیں ہے اور اب اس خوش فہمی کا خاتمہ ہونا چاہیئے کہ چونکہ ہم اللہ کو مانتے ہیں اس لیے ہم تو ہیں ہی کامیاب۔ ایمان آدمی کے اندر ذہانت اور حکمت پیدا کرتا ہے اور اس سے محنت، خلوص اور یکسوئی کا مطالبہ کرتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اب ہم دوسروں کا انتظار نہیں کرسکے کہ وہ آئیں اور ہماری بہتری کے لیے کردار ادا کریں۔ اپنی فلاح کی خاطر کام کرنے کے لیے اب ہمیں خود آگے بڑھنا ہے اور مستقبل کی بہتر تصویرسازی کے لیے پہلے سے زیادہ محنت کرنی ہے۔ احساس ذمہ داری اور واضح مقاصد کے بغیر ہم ایسی طاقت کبھی نہیں بن سکتے جو اپنی اور دوسروں کی بھلائی کے لیے کام کرے۔

ہمیں مروجہ مضحکہ خیز قسم کے تصور قومیت کو چھوڑ کر دنیا کے بارے میں ایک وسیع تر نکتہ نظر اپنانا ہوگا۔ اپنے ہمسایہ معاشروں میں جنم لیتے مسائل کی جانب توجہ کیے بغیر ہمارا کوئی مقامی اور قومی مسئلہ حل نہیں ہوسکے گا۔ ہم جتنے بھی تالے لگا لیں، ہمارا گھر اس وقت تک محفوظ نہیں ہوسکتا جب تک ہم ایک پرامن اور محفوظ ہمسائے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا نہیں کرتے۔ چونکہ ہمارے مسائل باہم مربوط اور یکساں توجہ کے متقاضی ہیں لہذا ہمیں مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ مسلم ممالک کے عدم اتحاد اور باہمی انتشار کی قیمت ہمیں فلسطین اور صومالیہ جیسے بڑے المیوں کی صورت ادا کرنا پڑتی ہے جو بعد ازاں اندرونی دہشت گردی اور غربت سے لڑنے میں بھی ہمارے لیے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔

اتحاد کا مطلب بالکل یک رنگ ہوجانا نہیں ہے اور نہ کثیر الثقافت ہونا کسی انتشار یا باہم تصادم کی نشانی ہے۔ اصل جوہر یہ ہے کہ آپ کثیرالثقافت ہوتے ہوئے اتحاد اور وحدت کو تشکیل دینے میں کامیاب ہوپائیں۔ مسلم ممالک کے اتحاد کے حوالے سے جو چیز انتہائی مضحکہ خیز ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کے پورے نظام ایمانیات کی بنیاد ہی عقیدہ توحید ہے لیکن مسلم معاشرے اس وحدت کو نہ اپنے انفرادی معاملات میں رائج کر پا رہے ہیں نہ امور اجتماعی میں۔ جیسے شیخ سعدی نے فرمایا تھا کہ جو آدمی اپنی روح میں توحید تلاش نہیں کرسکتا وہ توحید خداوندی کو بھی نہیں پا سکتا۔ اس سب کا نتیجہ ایک مکمل بے چینی، انتشار اور روحانی، علمی اور زمینی وسائل کے بڑے ضیاع کی صورت میں رونما ہو رہا ہے۔

مسلم دنیا کو اب اس گہرے خواب غفلت سے جاگ کر اپنے حال اور مستقبل کی ذمہ داری اپنے سر لینا ہوگی۔ اپنے مسائل کا دوش ہمیشہ دوسروں کو دیتے جانے سے مسائل کا حل کبھی نہیں نکل پاتا۔ یہ رویہ ہمیں صرف فکری کج روی اور ایک جھوٹے وقتی سکون ہی کی جانب لے جائے گا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ہمیں بیرونی مداخلتوں اور استحصال کا سدباب بھی خود ہی کرنا ہے لیکن یہ سب تبھی ممکن ہے جب ہمارا اپنا گھر ٹھیک ہو۔

ہم اپنے اندرونی مسائل کو حل کیے اور امن قائم کیے بغیر کبھی  بیرونی دنیا کے ساتھ قدم نہیں ملا سکتے۔ مسلم دنیا کی موجودہ قابل رحم تصویر اس کے اندرونی بحران، غربت اور انتشار کی عکاسی کر رہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ کھڑے ہوا جائے۔

 



متعللقہ خبریں