ترکیہ اور توانائی 21

ترکیہ میں بچت اور کفایت شعاری کی اسکیم اور توانائی کے قابل تجدید وسائل کی اہمیت

2141881
ترکیہ اور توانائی 21

ترکیہ سرکاری اداروں  میں بچت اسکیم نافذ کر رہا ہے۔ عوام سے تعلق رکھنے والے کئی ایک  شعبوں میں تدابیر اختیار کی جائینگی۔  جن  کا ایک اہم حصہ توانائی کے استعمال سے متعلق ہے۔

وزارت ِتوانائی  و قدرتی وسائل کی وزارت  نے   2053 مضر گیسوں کے صفر اخراج کے اہداف اور بچت  اسکیم اقدامات دونوں کے حوالے سے ایک اہم ایکشن پلان وضع کیا  ہے۔

اس پروگرام کا نام "2030 نیشنل انرجی ایفیشنسی سٹریٹیجی" ہے۔ اس حکمت عملی کے دائرہ کار میں ایکشن پلان کے ذریعے عوامی توانائی کی کھپت  میں 30 فیصد تک بچت کا منصوبہ ہے۔

جس کے تحت سال 2030 تک توانائی کی کھپت  میں  16 فیصد تک گراوٹ لانےاور  100 ملین ٹن اخراج میں کمی لانے کی منصوبہ بندی کی گئی  ہے۔

حکمت عملی اور ایکشن پلان میں سرکاری عمارتوں اور اسٹریٹ لائٹس کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ 2023 تک سرکاری عمارتوں کے لیے 15 فیصد بچت کا ہدف مقرر کرنےو الی وزارت نے  سرکاری عمارتوں کے بجلی کے بلوں میں 1.1 بلین لیرے کی سالانہ بچت حاصل کی ہے۔

2024  میں اس بچت کا ہدف دوگنا کر دیا گیا ہے تو 2030 تک سرکاری عمارتوں میں 30 فیصد بچت کا ہدف مقرر کیا گیا  ہے۔

اسی طرح  اسٹریٹ لائٹس  کو  ایل ای ڈی میں منتقل کرنے  کا ایک جامع پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ 2030 تک  پبلک مقامات  کے لیے ں 1.2 ملین ایل ای ڈی قمقمے لگائیں جائیں گے۔ اس معاملے میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں اور بلدیات  کے ساتھ مل کر کام کیا جائیگا۔

مذکورہ منصوبے پر  2024 میں عمل درآمد شروع کیا گیا ہے۔ محض  4 ماہ میں حاصل کردہ بچت کی سطح  1 ارب 100 ملین لیرےسے تجاوز کر گئی ہے۔

وزارت کا  خاص طور پر بجلی کی پیداوار میں غیر ملکی ذرائع  پر انحصار کو  کم سے کم  سطح پر لانے کا ہدف  ہے ۔

اس سمت میں اٹھائے جانے والے نئے اقدامات میں سے اہم ترین قابل تجدید توانائی کے وسائل ہیں۔

ترکیہ نے گزشتہ سال قابل تجدید ذرائع سے 42 فیصد بجلی پیدا کرکے عالمی اوسط  کو بھی پار کیا  ہے۔

بجلی کی پیداوار کا 6 فیصد شمسی توانائی سے، 10 فیصد ہوا سے اور 20 فیصد ہائیڈرو الیکٹرک وسائل سے حاصل کیا گیا، جبکہ 58 فیصد نامیاتی  ایندھن سے   حاصل کیا گیا۔

قابل تجدید توانائی کے استعمال  کو بڑھانے کے لیے مزید ایک اہم قدم اٹھایا گیا ہے۔

توانائی اور کان کنی کے قوانین میں کی گئی ترامیم کے  ساتھ پینے کا پانی حاصل کردہ بیراجوں، بارانی  علاقوں اور ساحل سمندر کے علاوہ  کے علاقوں  میں فلوٹنگ  سولر پاور پلانٹس قائم کیے جا سکنے کی راہ ہموار کی گئی ہے۔

ریگولیشن کے ذریعے سمندروں، ڈیم جھیلوں، مصنوعی اور قدرتی جھیلوں میں توانائی کی پیداوار کی سہولیات قائم کی جا سکتی ہیں۔

اس طرح شمسی توانائی کے کردار میں مزید اضافہ ہو گا اور فوسل فیول سے بجلی کی پیداوار کم ہو جائے گی۔

ریگولیشن کے ذریعے سمندروں، ڈیم جھیلوں، مصنوعی اور قدرتی جھیلوں میں توانائی کی پیداوار کرنے والی تنصیبات  قائم کی جا سکیں گی۔

جس سے  شمسی توانائی کے کردار میں مزید اضافہ ہو گا اور فوسل فیول کے ساتھ بجلی کی پیداوار کم ہو جائے گی۔

جہاں عوامی بچت  کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، وہیں توانائی کی بچت کے لیے گھروں  اور دفاتر  میں بھی بچت  بڑی اہمیت کی حامل ہے۔

گھروں اور دفاتر میں مختصر تدابیر کی بدولت  توانائی کی کھپت  میں تقریباً نصف حد تک کمی لانا  ممکن ہے۔

تو اس ضمن میں کونسی تدابیر اختیار کرنا لازمی ہیں؟

- غیر ضروری روشنیوں کو بند کر دینا چاہیے۔

- توانائی سے چلنے والے الیکٹرانک آلات اور روشنی کے نظام، خاص طور پر ایل ای ڈی قمقمے استعمال کیے جائیں۔

- برقی آلات کے پلگ جو استعمال میں نہیں ہیں ساکٹ سے ہٹا دیے جائیں۔

- ریڈی ایٹرز فرنیچر کے پیچھے نہیں ہونے  چاہییں،  ان کے سامنے کوئی  اشیا نہیں ہونی چاہیے۔

- سردیوں کے مہینوں میں گھروں اور دفاتر کے دروازے بند رکھے جانے  چاہئیں۔

- غیر استعمال شدہ کمروں میں الیکٹرک  ہیٹرز کا درجہ حرارت کم کر دینا چاہیے۔

ریفریجریٹرز کا درجہ حرارت 3 تا 5 سینٹی گریڈ کے درمیان ہونا چاہیے۔

- فریج، ڈش واشر اور واشنگ مشینوں کو زیادہ موثر طریقے سے کام کر سکنے کے لیے انہیں صاف رکھا جائے۔

- گرم کھانے کو فریج میں رکھنے سے پہلے ٹھنڈا ہونے کا انتظار کیا جائے ، کھانا ٹھنڈا کیے بغیر فریج میں رکھنے سے ریفریجریٹر زیادہ توانائی استعمال کرتا ہے۔

- اوون میں سرامک ​​یا شیشے کے برتنوں میں کھانا بنانے سے  درجہ حرارت 20 ° C تک کم کیا جا سکتا ہے۔

- دفتر اور گھر کے لیے خریدے گئے الیکٹرانک آلات کی خرید میں  توانائی کی بچت والے آلات کو ترجیح دی جانی چاہیے۔

- ایئر کنڈیشن کی دیکھ بھال کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے اور کمرے کا درجہ حرارت سردیوں میں 18-20 ° C اور گرمیوں میں 24 ° C  تک برقرار رکھا جائے۔

- ائیر کنڈیشنر ایسی جگہوں پر نصب کیے جائیں جہاں سورج کی روشنی براہ راست نہیں آتی۔



متعللقہ خبریں