پاکستان ڈائری- چائلڈ لیبر

پاکستان میں بچوں سے مشقت کروانے کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہیں جن میں غربت،وسایل کی کمی اور آبادی میں بے تحاشہ اضافہ شامل ہے۔بہت سے افراد اپنے خاندان کا پیٹ نہیں پال سکتے اس لیے بچوں کو جبری مشقت پر بجھوا دیتے ہیں

2000166
پاکستان ڈائری- چائلڈ لیبر

پاکستان ڈائری -24-2023

پاکستان میں بچوں کی ایک بڑی تعداد بدترین مشقت کا شکار ہے۔بارہ جون کو دنیا پھر میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے دن منایا جاتا ہے تاکہ اس حوالے سے آگاہی پیدا کی جائے۔ بچے مزدوری،معدنیات نکالنے کے لیے کان کنی،اینٹوں کے بھٹوں پر اینٹیں بنوانا،گھروں میں ملازم بن کر کام کررہے ہیں اس کے ساتھ بازاروں میں چیزیں بیچنا،ورکشاپ میں گاڑیوں کی مرمت کرنا،کاشتکاری،گھریلو ملازمت، ہوٹلوں میں گاہکوں کے جھوٹے برتن صاف کرتے تمام ہی بچوں سے مشقت کرنے کی مخلتف اقسام ہیں۔

پاکستان میں بچوں سے مشقت کروانے کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہیں جن میں غربت،وسایل کی کمی اور آبادی میں بے تحاشہ اضافہ شامل ہے۔بہت سے افراد اپنے خاندان کا پیٹ نہیں پال سکتے اس لیے بچوں کو جبری مشقت پر بجھوا دیتے ہیں کچھ بچے گلی کوچوں میں کام کرتے ہیں تو کچھ گھروں اور کارخانوں کی چار دیواری میں کچھ والدین کے مالی حالات کی وجہ سے کام کررہے ہیں تو کچھ یتیمی کی وجہ سے ان حالات کا شکار ہیں۔ان بچوں کا استحصال اس ہی وقت سے شروع ہوجاتا ہے جب ان کو گھر کی دہلیز سے نکالا جاتا ہے یا وہ یتیمی کے باعث گھر سے محروم ہوتے ہیں۔ماں کی آغوش اور باپ کی شفقت سے محروم یہ بچے جب باہر کام کرتے ہیں تو ان کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اجرت کم دی جاتی ہے،تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے، ان کی غذایی ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا،انہیں موسم کے لحاظ سے لباس مہیا نہیں کیا جاتا اور بعض اوقات یہ بچے جنسی تشدد کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔

عام طور پر بچوں کو مالکان انتہایی کم اجرت پر ملازم رکھتے ہیں انکو مارتے ہیں۔ اس کے حوالے سے نا ہی کویی نگرانی کی جاتی ہے نا ہی حکومت دلچسپی لیتی ہے ۔ دس سے پندرہ سال کی عمر کے تقریبا چار عشاریہ چار فیصد بچے ملک کی افرادی قوت کا مستقل حصہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دو عشاریہ اٹھاون ملین بچے وہ ہیں جو دس سال سے کم عمر ہیں۔ جب کہ یہ انکے پڑھنے کی عمر ہے پر کسی کو انکا احساس ہی نہیں۔

بین الاقوامی قوانین برایے لیبر کی شق سی ١۳۸ کے مطابق ملازمت کی کم ازکم عمر پندرہ سال ہےلیکن اس کے تحفظ کے ساتھ کہ یہ ملازمت بچے کی جسمانی اورذہنی صحت پر کویی اثر نہیں ڈالی گی اور نا ہی اس کی تعلیم متاثر ہوگی۔پاکستان بھی اس قانون کو مانتا ہے اور پاکستان کے قانون میں بھی مزدور کی عمر کم سے کم عمر چودہ سال رکھی گی ہے اور آئین کی شق پچس اے کے مطابق مفت تعلیم ہر بچے کا حق ہے لیکن اس پر عمل درآمد بلکل نظر نہیں آتا۔

پاکستان میں بچوں کو غلام بنانے سے لے کر گھریلو ملازم تک جبری مشقت سے لے کر منشیات کے کاروبار میں استعمال کرنے سے لے کر انہیں خود کش حملوں اور دہشت گردی میں استعمال  کا ظلم جاری ہے۔اس کی بڑی وجہ ہمارے معاشرتی رویے اور قانون پر عمل درآمد نا کرنا ہے۔اس وقت ان بچوں کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنی کی ضرورت ہے۔اگر کویی بھی شخص بچوں سے خطرناک مزدوری کروایے تو اس پر جرمانہ عاید کیا جایے یا قید کی سزا سنایی جایے۔ جبری مشقت کا خاتمہ صرف قانون نفاذ کرنے والے ادارے ہی ختم کرواسکتے ہیں جہاں بھی مزدور بچوں کو غلام بنا کر کام کروایا جارہا اسکے خلاف آواز بلند کریں اور قانون نفاذ کرنے والے اداروں کو آگاہ کریں۔

قومی اسمبلی میں بیٹھے قانون سازوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ مزدور بچوں کے حقوق کے لیے موثر قانون سازی کریں۔جو بھی قانون سازی ہو وہ آیی یل او کے کنونشنز کے مطابق ہونی چاہیے۔ 

ہم ان سب مشقت کا شکار بچوں کی ملازمت ایک دم سے تو نہیں چھڑوا تو نہیں سکتے لیکن تعلیم اور شفقت سے ہم انہیں ایک بھرپور اور کامیاب زندگی جینے کا موقعہ دے سکتے ہیں۔کارخانے دوکان یا گھر کہیں بھی ایک چھوٹا بچہ ملازمت کرتا نظر آیے تو اگر آپ میں ایک بھی اسکی تعلیم کا ذمہ خود لے لیے تو وہ بچہ ساری زندگی غربت کی چکی نہیں پسے گا۔

حکومت،این جی اوز،مخیر حضرات سب مل کر ہی اس مسلے پر قابو پا سکتے ہیں کسی بھی انسان کے لیے سب سے خوبصورت دور اس کا بچپن ہوتا ہے اس لیے ہمیں اپنے اردگرد بہت سے انسانوں کے اس خوبصورت دور کو بد صورت ہونے سے روکنا ہے۔بچوں پر ظلم و زیادتی،بچوں کو غلام بنانا،بچوں سے بد فعلی،جسمانی سزایں،جسم فروشی اور دہشت گردی میں بچوں کا استعمال ان کی آنے والی زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیتا ہے اور بہت سے بچے اس باعث اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔اس لیے ہم سب کو مل کر ان کے لیے کام کرنا ہوگا ۔

 

 

 

 

 



متعللقہ خبریں